أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَذِكۡرٰى لِمَنۡ كَانَ لَهٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَى السَّمۡعَ وَهُوَ شَهِيۡدٌ ۞

ترجمہ:

بیشک اس (قرآن) میں اس کے لیے ضرور نصیحت ہے جو صاحب دل ہو یا جو ذہن حاضر کر کے کان لگائے

قٓ:37 میں فرمایا : بیشک یہ (قرآن) اس کے لیے ضرور نصیحت ہے جو صاحب دل ہو یا ذہن حاضر کر کے کان لگائے۔

اس آیت میں قلب سے مراد عقل ہے اور عقل کو قلب سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ عرف اور محاورہ میں عقل کا محل دل ہے ورنہ حقیقت میں عقل کا محل دماغ ہے۔ مجاہد نے کہا : قلب سے مراد ہے : زندہ انسان کا نفس جو اشیاء میں تمیز کرتا ہو اور نفس کو قلب سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ عرف میں قلب ہی نفس اور حیات کا وطن اور معدن ہے۔

یحییٰ بن معاذ نے کہا : انسان میں دو قلب ہیں، ایک وہ قلب ہے جو دنیا کے اشغال میں منہمک رہتا ہے حتیٰ کہ جب اس کے سامنے آخرت کا کوئی معاملہ آئے تو اس کو پتا نہیں چلتا کہ وہ کیا کرے اور دوسرا قلب وہ ہے جو آخرت کے افکار میں مستغرق رہتا ہے حتیٰ کہ جب اس کے سامنے دنیا کے متعلق کوئی معاملہ پیش کیا جائے تو وہ نہیں سمجھ پاتا کہ اس کے متعلق کیا کرنا چاہیے۔

(الجامع الاحکام القرآن للقرطبی جز 17 ص 22)

میں کہتا ہوں کہ انسان میں دو دلوں کا ہونا تو مشاہدہ اور تجربہ کے خلاف ہے، البتہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ ہیں جن کا دل دنیاداری میں لگا رہتا ہے اور دوسرے وہ ہیں جن کا دل دین داری میں لگا رہتا ہے۔

اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنی عقل کو استعمال کر کے بہ غور قرآن مجید میں مذکور نصیحتوں کو سنے گا تو اس کو ضرور ہدایت حاصل ہوگی اور جو بےتوجہی اور بےپرواہی سے قرآن کریم کو سنے گا اس کو اس کی نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 37