أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاصۡبِرۡ عَلٰى مَا يَقُوۡلُوۡنَ وَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ وَقَبۡلَ الۡغُرُوۡبِ‌ۚ‏ ۞

ترجمہ:

سو آپ ان کی (دل آزار) باتوں پر صبر کیجئے اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو آپ ان کی (دل آزار) باتوں پر صبر کیجئے اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے، طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے۔ اور رات کے کچھ حصہ میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور انسانوں کے بعد (بھی) ۔ اور (اے مخاطب ! ) غور سے سن جب منادی قریب کی جگہ سے پکارے گا۔ جس دن لوگ چیخ کی آواز برحق سنیں گے، یہ قبروں سے نکلنے کا دن ہے۔ (قٓ:39-42)

قٓ:39 کا سبب نزول

اس آیت قٓ:39 میں آپ کو کفار کی دل آزار باتوں پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے، ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے نازل ہوئی تھی اور اب منسوخ ہوچکی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کے لیے اس کا حکم ثابت ہے، یعنی اگر آپ کی اور آپ کی امت کی ذات کے خلاف کوئی دل آزار بات کہی جائے تو اس پر صبر کریں، اور اگر دین اسلام کے خلاف کوئی بات کہی جائے تو اس پر ان کے خلاف جہاد کریں اور ایک قول یہ ہے کہ یہود نے جو کہا ہے کہ چھ دن آرام کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن تھکاوٹ اتارنے کے لیے آرام کیا تو آپ ان کے اس قول پر صبر کریں۔

فجر اور عصر کی نماز پڑھنے کی خاص اہمیت

اور یہ جو فرمایا ہے : اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے، طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے اس سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں، حدیث میں ہے :

حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : عنقریب تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمہیں اس کو دیکھنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی، پس اگر تم طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے میں کسی سے مغلوب نہ ہو تو ایسا کرلو، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : ” وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب۔ “ (ق :39) یعنی یہ نمازیں تم سے قضا نہ ہونے پائیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :554، صحیح مسلم رقم الحدیث :632، سنن ابو داؤد رقم الحدیث :4729، سنن ترمذی رقم الحدیث :592، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :177، السنن الکبریٰ رقم الحدیث :460)

بالخصوص فجر اور عصر کی نمازوں کی جو تاکید فرمائی ہے اس کی وجہ درج ذیل حدیث میں مذکور ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے پاس رات کے اعمال لکھنے والے اور دن کے اعمال لکھنے والے فرشتے ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں اور یہ دونوں فرشتے فجر اور عصر کی نمازوں میں جمع ہوتے ہیں، پھر جن فرشتوں نے تمہارے پاس رات گزاری تھی وہ اوپر چڑھتے ہیں، پھر ان کا رب جو کہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے ان سے سوال کرتا ہے : تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ کہتے ہیں : ہم نے ان کو چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم ان کے پاس آئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :555، صحیح مسلم رقم الحدیث :632، سنن الترمذی رقم الحدیث : 186، سنن النسائی رقم الحدیث : 517، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :699)

مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز سنت پڑھنے کی تحقیق

بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ ” قبل طلوع الشمس “ سے مراد نماز فجر سے پہلے کی دو سنتیں ہیں اور ” قبل الغروب “ سے مراد مغرب کی نماز سے پہلے کی دو سنتیں ہیں۔ نمازِ مغرب سے پہلے دو سنتیں پڑھنے کی دلیل یہ حدیث ہے :

ثمامہ بن عبداللہ بن انس بیان کرتے ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے اصحاب فہم مغرب سے پہلے دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم مدینہ میں تھے، جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو صحابہ جلدی سے مسجد کے ستونوں کے پیچھے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے اور اس قدر لوگ یہ دو رکعت نماز پڑھتے تھے کہ کوئی مسافر مسجد میں آتا تو یہ سمجھتا تھا کہ جماعت ہوچکی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :837)

ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مغرب کی اذان کے بعد جماعت سے پہلے دو رکعات نماز پڑھنا سنت ہے اور اب حرمین شریفین میں ائمہ ثلاثہ کے مقتدی یہ نماز پڑھتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ نماز جائز ہے، سنت نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد سے سورج کے غروب ہونے کے بعد نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ راوی نے حضرت انس سے پوچھا : کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی یہ دو رکعت نماز پڑھتے تھے ؟ حضرت انس نے کہا : آپ ہمیں یہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے، پس آپ ہمیں اس نماز کا حکم دیتے تھے اور نہ اس نماز سے منع کرتے تھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :836)

صحابہ کرام جو مغرب سے پہلے دو رکعت نماز پڑھتے تھے، ان کی دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر دو اذانوں (ہر اذان اور اقامت) کے درمیان نماز ہے، یہ آپ نے تین بار فرمایا اور تیسری بار فرمایا جو چاہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :624، صحیح مسلم رقم الحدیث :838، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :1283، سنن ترمذی رقم الحدیث :185، سنن نسائی رقم الحدیث :671-672، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1162)

ہر چند کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنا جائز ہے لیکن ان کے نزدیک راجح یہ ہے کہ مغرب کی اذان کے فوراً بعد نماز پڑھ لی جائے اور ان کی دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت ابو ایوب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب کی نماز جلدی پڑھتی رہے گی، جب تک وہ مغرب کی نماز کو اتنا مؤخر نہ کرے کہ ستاروں کا جال بن جائے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث :418، المستدرک ج 1 ص 190، مسند احمد ج 1 ص 190-191)

علامہ علاء الدین کا سانی متوفی 587 ھ اور علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکر مرغینانی متوفی 593 ھ نے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے : ” لا یزال امتی بخیر ما غجلوا المغرب واخروالعشائ “۔ علامہ عبداللہ بن یوسف زیلعی حنفی متوفی 764 ھ نے لکھا ہے : ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث ثابت نہیں ہے، غریب ہے۔ (نصب الرایہ ج 1 ص 317، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1416 ھ) اصل میں اس حدیث کے وہی الفاظ ہیں جو ہم نے ” سنن ابوداؤد “ اور ” مستدرک “ کے حوالوں سے نقل کیے ہیں، ” ہدایہ “ کے بعض مقامات پر ایسی اور بھی مثالیں ہیں، علامہ بدر الدین عینی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی اصل ہے لیکن اس کے یہ الفاظ نہیں ہیں۔ (بنایہ ج 2 ص 49، دارالفکر، بیروت، 1411 ھ) علامہ ابن ہمام نے ” فتح القدیر “ میں اس حدیث کی وہی عبارت ذکر کی ہے جو ” سنن ابوداؤد “ میں ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی لکھا ہے کہ ان الفاظ کے ساتھ مجھے یہ حدیث نہیں ملی۔ (الدرایۃ ج 1 ص 106)

اس تحقیق کو ذکر کرنے سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ” بدائع الصنائع “ اور ” ہدایہ “ میں حدیث کے الفاظ پڑھ کر کوئی عالم ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کی روایت نہ کرے، تاوقتیکہ اس حدیث کی اصل کتب سے تحقیق نہ کرلے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 39