مسلم قیادت، اور سیاسی “سلو پوائزن”
*مسلم قیادت، اور سیاسی “سلو پوائزن”*
مسلم لیڈروں کی سیاست ختم کرکے انھیں ملک و قوم کا غدار ثابت کرنے والے سیکولر ازم کے علم برداروں کی حقیقت بیاں کرتی ایک تجزیاتی تحریر –
تحریر: محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف
چئیرمین: تحریک علمائے بندیل کھنڈ
رکن :روشن مستقبل دہلی
سلو پوائزن نام تو سنا ہی ہوگا، ایسا کارگر زہر ہے جس کا کوئی توڑ نہیں،اثر انداز ہونے میں وقت لیتا ہے، لیکن جب اثر کرتا ہے تو دنیا میں اس کا تریاق نہیں ملتا – خیر! ہمیں اس سے کیا؟ ہم بات کر رہے ہیں مسلم قیادت کو ٹھکانے لگانے کی یعنی سیاسی “سلو پوائزن” کی، مسلم لیڈران اور مسلم قیادت کو بھی سلو پوائزن دیا جاتا ہے، لیکن طریقے مختلف ہوتے ہیں، جب تک اس زہر کو لیڈر سمجھتا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے –
کچھ روز قبل میں نے اپنی تحریر “انصاری پریوار پر سماجواد کے ڈورے” میں یہ مشورہ دیا تھا کہ مسلم لیڈر سیکولر لیڈروں کا چکر چھوڑ کر اپنی قیادت کو مضبوط کریں، نام نہاد سیکولر مسلم قیادت چاہتے ہی نہیں ہیں، خود کے رشتے داروں پر سیکڑوں کیس ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں جب کہ مسلم لیڈرران کو یہی سیکولر جب چاہتے ہیں غنڈہ، موالی، انسانیت کا دشمن، اور جب چاہتے ہیں شرافت کا سرٹیفکیٹ کا دے کر اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں – دونوں صورتوں میں مسلم رہنماؤں کو کچھ نہیں ملتا، حکومت بنتے ہی مسلم لیڈروں کی حیثیت صفر ہوجاتی ہے، زیادہ کچھ مانگتے ہیں تو پارٹی سے باہر کردیا جاتا ہے اور جیل بھی بھجوا دیا جاتا ہے –
____ انڈر ورلڈ کا ایک طریقہ ہے کہ وہ جس آدمی کو اپنے ساتھ کام کرنے پر راضی کرتے ہیں اسے پہلی ڈلیوری یا دوسری پر خود ہی پولیس سے گرفتار کرا دیتے ہیں، پھر خود ہی ضمانت کرا لیتے ہیں، یہ سب اس لیے کرتے ہیں کہ اب تم ان کے چنگل سے کسی صورت نہ نکل سکو، اگر نکلنا چاہتے ہو تو جیل جاؤ یا پھر انکے دھندے میں شریک ہوکر ہر برا کام بھی کرو اور ضرورت پڑنے پر اپنی قربانی بھی پیش کرو – مسلم لیڈروں کے ساتھ سیاسی پارٹیاں یہی کرتی ہیں، پہلے کندھے پر ہاتھ رکھ کر خوب گناہ کرنے دیتی ہیں، خود ہی کیس بھی کراتے رہتے ہیں اور رہا بھی کراتے ہیں، اب جب ایک حد تک خاصے جرم ہوجاتے ہیں تو یہ لوگ ان کا استعمال کرتے ہیں اور انکے نام پر ووٹ لے کر خوب حکومت کرتے ہیں، سب کچھ انھیں ملتا ہے اور مسلم لیڈر باہو بلی بنتے جاتے ہیں، اب مسلم لیڈران کی مجبوری ہوتی ہے نہ پارٹی چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی پارٹی سے اپنی قوم کے لئے کچھ حاصل کر سکتے ہیں –
ایک ویڈیو میں دیکھا کہ عتیق احمد اکھلیش یادو سے ملاقات کے لئے آگے بڑھتے ہیں اور اکھلیش ہاتھ جھٹک دیتے ہیں، مسلم چہروں کو سیاسی مہرہ بناکر وزیر اعلی کی کرسی پانے والے کس قدر عزت افزائی کرتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے –
*یوں ختم کیے جاتے ہیں ہمارے لیڈر*
جرائم میں سر سے لے کر پیر تک ڈوبنے کے بعد آپ کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے یہ مختار انصاری اور عتیق احمد سے زیادہ کون جان سکتا ہے، وہیں وفاداری والی سیاست اور شفاف شبیہ والے اعظم خان اور نسیم الدین صدیقی دوسرے طریقے سے ٹھکانے لگائے گیے ہیں – حکومت میں ہوتے ہوئے بھی مسلم لیڈر اپنے لوگوں کے کام نہیں کروا پاتے نتیجہ ان کی مخالفت بڑھتی ہے اور اگلا الیکشن ہار جاتے ہیں، بسا اوقات جان بوجھ کر ہرایا جاتا ہے یا ایسی سیٹ سے الیکشن لڑایا جاتا ہے جہاں آپ کو کوئی پہچانتا نہیں ہے –
_____یہ سائلینٹ موت یعنی سیاسی “سلو پوائزن” کس لیڈر کو کب دینا ہے یہ سیاسی پارٹیاں خوب جانتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی بڑا مسلم لیڈر کچھ نہیں کر سکا، اعظم خان، نسیم الدین، عتیق احمد، مختار انصاری اور دہلی سے امانت اللہ خان وغیرہ ایسے لیڈر ہیں جب جب ان کی پاپولرٹی بڑھی ہے اسی وقت سیکولروں نے انھیں پارٹی سے باہر کر دیا( اتر پردیش کی پولیٹکس میں اندر باہر ہونے میں اعظم خان اور مذکورہ دونوں لیڈر ایک نمبر پر رہے ہیں) – پھر سال دو سال بھٹکنے دیتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ الیکشن قریب ہے مسلم ووٹ متاثر ہو سکتا ہے تو تمام تراکیب اپنا کر دوبارہ پارٹی میں شامل کیا جاتا ہے، ظاہر ہے آپ ایک دو سال بعد پارٹی میں آئیں گے تو اپنی بات اتنی جلدی اور اس قوت سے جیسے پہلے رکھ سکتے تھے اب نہیں رکھ سکتے – نیز اب وہ وقت ہوتا ہے کہ سارا زور الیکشن کی تیاریوں میں ہی صرف ہوتا ہے، ایک سال شروع کا وزیر اعلیٰ بننے، دیگر وزرا بنانے اور کام کاج پٹری پر لانے میں نکل جاتا ہے، لاسٹ کے دو سال الیکشن کی تیاری میں، بیچ کے دو سال آپ پارٹی سے باہر ہوتے ہیں، یعنی آپ کے کام کے سال ایسے تباہ کیے کہ آپ کو خبر ہی نہ ہوئی، اور الیکشن میں آپ کو استعمال کرنے کے لیے دوبارہ پارٹی میں شامل کیا جاتا ہے، مسلم لیڈر سمجھتے ہیں کہ ناک رگڑی ہے لیکن وہ جانتے ہیں ایک دن کا جھکنا انھیں پانچ سال بلند کرنے والا ہے اس لیے کیا جاتا ہے؟ اب اگر پارٹی جیت جاتی ہے تو طریقہ پھر وہی، اور ہار گیے تو پانچ سال پارٹی کے لیے احتجاج کریے، لاٹھی ڈنڈے کھاکر پارٹی کے متعلق وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے گزاریے اور اپنا پیسہ بھی خرچ کریے یعنی جو حکومت میں کمایا ہے سب سود سمیت پارٹی کو واپس کردیجیے –
*عتیق احمد کی مجلس میں شمولیت اچھا فیصلہ ہے*
ساری سیاسی پارٹیاں مسلم چہرہ دکھا کر اتر پردیش میں مسلمانوں کا بیس فیصد ووٹ لے جاتی ہیں اور مسلمانوں کو ملتا کچھ نہیں ہے، ابھی تک کوئی مضبوط سیاسی پارٹی بھی نہیں تھی، لیکن اس بار مجلس اتحاد المسلمین میدان میں ہے اور سو سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکی ہے، مجلس کے قومی صدر جناب اسد الدین اویسی صاحب اسی سلسلے میں آج ایودھیا سے اپنا تین روزہ سیاسی دورہ شروع کر رہے ہیں، اسی کڑی میں آج لکھنؤ میں سابق رکن پارلیمنٹ اور پانچ بار ایم ایل اے(MLA) رہے عتیق احمد کی بیوی، بیٹے سبھی مجلس اتحاد المسلمین میں شامل ہوگیے ہیں، عتیق احمد اتر پردیش الیکشن میں ایک بڑا مسلم چہرہ ہیں، ان کے آنے سے مجلس کا فائدہ یقینی ہے، اگر انصاری خاندان بھی اس کے متعلق سوچ لے تو مجلس اتر پردیش میں ایک نئی طاقت بن کر ابھرے گی اور مسلمان بھی اپنا ذہن مجلس کے لیے بآسانی بنا لیں گے، اگر ایسا ہوجائے تو مسلمانوں کو ٹھگنے والے لوگوں کے لیے مشکلیں شروع ہوجائیں گی اور ہمیں ہمارے حقوق ملنے لگیں گے ، میں پھر کہوں گا کہ مخصوس نشستوں پر ہمیں اپنی قیادت کو سپورٹ کرنا ضروری ہے ورنہ ایسے ہی اور ستر سال ووٹ دیتے رہیں گے اور ملے گا کچھ نہیں –
8/9/2021