أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاسۡتَمِعۡ يَوۡمَ يُنَادِ الۡمُنَادِ مِنۡ مَّكَانٍ قَرِيۡبٍۙ‏ ۞

ترجمہ:

اور (اے مخاطب ! ) غور سے سن جب منادی قریب کی جگہ سے پکارے گا

تفسیر:

ترجمہ : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (اے مخاطب ! ) غور سے سن جب منادی قریب کی جگہ سے پکارے گا۔ جس دن لوگ چیخ کی آواز برحق سنیں گے یہ (قبروں سے) نکلنے کا ہے۔ بیشک ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ جس دن زمین ان سے پھٹ جائے گی تو وہ دوڑتے ہوئے نکلیں گے، یہ حشر (بپا کرنا) ہم پر بہت آسان ہے۔ ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ (کفار) کہہ رہے ہیں، اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں، پس آپ اس کو قرآن سے نصیحت فرمائیں جو میرے عذاب کی وعید سے ڈرتا ہو۔ (قٓ:41-45)

دوسرے صور میں پھونکنے کے بعد لوگوں کے زندہ ہونے کی کیفیت

یعنی اے مخاطب ! قیامت کی چیخ کو غور سے سن اور منادی کے متعلق دو قول ہیں : ایک قول یہ ہے کہ منادی حضرت جبریل ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ منادی حضرت اسرافیل ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت اسرافیل صور میں پھونکیں گے اور حضرت جبریل نداء کریں گے اور یہ دوسری بار صور میں پھونکنا ہوگا، حضرت جبریل کہیں گے : چلو حساب کی طرف چلو، اس قول کی بناء پر یہ نداء میدان حشر میں ہوگی۔

اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے مخاطب ! کفار کی چیخ و پکار سن، جو قریب کی جگہ سے ہائے عذاب، ہائے موت پکار رہے ہوں گے اور اس چیخ و پکار کو تمام اہل محشر سن رہے ہوں گے اور کوئی شخص اس نداء سے دور نہیں ہوگا۔

عکرمہ نے کہا : رحمن کا منادی نداء کرے گا گویا کہ وہ لوگوں کے کانوں میں نداء کرے گا، مکان قریب کے متعلق اور بھی کئی اقوال ہیں، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بیت المقدس کا پتھر ہے، حضرت جبریل یا اسرافیل اس پتھر پر کھڑے ہو کر نداء کریں گے : اے پرانی ہڈیو ! اے کٹے ہوئے جوڑو ! اور اے بوسیدہ ہڈیو ! اور اے فانی کفنو ! اور اے گرے ہوئے دلو ! اور اے خراب بدنو ! اور اے آنسو بہانے والی آنکھو ! رب العلمین کے سامنے پیش ہونے کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ قتادہ نے کہا : یہ نداء کرنے والے حضرت اسرافیل ہیں جو صور پھونکنے والے ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 41