أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَكَمۡ اَهۡلَـكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ هُمۡ اَشَدُّ مِنۡهُمۡ بَطۡشًا فَنَقَّبُوۡا فِى الۡبِلَادِ ؕ هَلۡ مِنۡ مَّحِيۡصٍ ۞

ترجمہ:

اور ہم نے ان (اہل مکہ) سے پہلے کتنی ہی قومیں ہلاک کردی تھیں جو گرفت کی قوت میں ان سے زیادہ تھیں، انہوں نے بہت سے شہروں کو کھنگال ڈالا کہ کہیں چھٹکارے کی جگہ ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے ان (اہل مکہ) سے پہلے کتنی ہی قومیں ہلاک کردی تھیں جو گرفت کی قوت میں ان سے زیادہ تھیں، انہوں نے بہت سے شہروں کو کھنگال ڈالا کہ کہیں چھٹکارے کی جگہ ہو۔ بیشک یہ (قرآن) اس کے لیے ضرور نصیحت ہے جو صاحب دل ہو یا جو ذہن حاضر کر کے کان لگائے۔ اور بیشک ہم نے آسمانوں اور زمینوں کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا، اور ہمیں کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی۔ (قٓ:36-38)

” نقبوا “ اور ” لغوب “ کا معنی اور عقل کا محل

اس آیت : (قٓ:36) میں یہ بتایا ہے کہ اے نبی مکرم ! ہم آپ سے پہلے کتنی ہی ایسی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جو اہل مکہ سے زیادہ طاقت ور تھیں، انہوں نے ہمارے ہلاک آفریں عذاب سے بچنے کے لیے بہت شہروں میں پناہ ڈھونڈنا چاہی لیکن ان کو کسی جگہ ہمارے عذاب سے پناہ نہیں مل سکی۔

اس آیت میں ” نقبوا “ کا لفظ ہے، ” نقب “ کا لغوی معنی ہے : سوراخ کرنا، لیکن یہاں اس کا معنی ہے : شہروں میں گھومنا پھرنا، اس کے بعد ہے : ” ہل من محیص “۔ ابن زید نے کہا : اس کا معنی ہے : کیا موت سے نجات کی کوئی جگہ ہے ؟ قتادہ نے کہا : اس کا معنی ہے : کیا بھاگنے کی کوئی جگہ ہے ؟ سعید نے کہا : اس کا معنی ہے : کیا اللہ کے عذاب سے روکنے کی کوئی جگہ ہے ؟

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 36