أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمِنَ الَّيۡلِ فَسَبِّحۡهُ وَاَدۡبَارَ السُّجُوۡدِ ۞

ترجمہ:

اور رات کے کچھ حصہ میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور نمازوں کے بعد (بھی

رات کو اٹھ کر تسبیح پڑھنے کے محامل

قٓ:40 میں فرمایا : اور رات کے کچھ حصہ میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور نمازوں کے بعد (بھی) ۔

اس آیت کی تفسیر میں چار قول ہیں :

(١) ابوالاحوص نے کہا : اس سے مراد ہے : رات کو اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنا (٢) مجاہد نے کہا : اس سے مراد ہے : تمام رات نماز پڑھنا (٣) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس سے مراد ہے : فجر کی دو رکعت سنت پڑھنا (٤) ابن زید نے کہا : اس سے مرد ہے : عشاء کی نماز پڑھنا۔

ابن العربی نے کہا : اس سے مراد وہ تسبیحات ہیں جو رات کو بیدار ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہیں :

حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے رات کو بیدار ہو کر یہ کلمات پڑھے :

” لا الہ الا اللہ وحدہٗ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، و ہو علی کل شیء قدیر، الحمد للہ و سبحان اللہ ولا الا الہ الا اللہ واللہ اکبر، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ “ پھر کہا : ” اللم اغفرلی “ یا کوئی اور دعا کی تو اس کی دعا قبول ہوجائے گی، پھر اگر اس نے وضو کیا تو اس کی نماز مقبول ہوگی۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :1154، سنن ابو داؤد رقم الحدیث :5060، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3878)

بعض علماء نے کہا : ان تسبیحات سے وہ تسبیحات مراد ہیں جو نمازوں کے بعدپڑھی جاتی ہیں، حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ فقراء صحابہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہنے لگے کہ مال دار لوگ بلند درجات اور دائمی نعمتوں کو لے گئے، وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں اور ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور کیونکہ ان کو مال کی فضیلت حاصل ہے تو وہ اس مال کے سبب سے حج کرتے ہیں اور عمرہ کرتے ہیں اور جہاد کرتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتاؤں کہ اگر تم اس کو کرو گے تو تم اپنے اوپر سبقت کرنے والوں کی عبادتوں کا اجر پالو گے اور تمہارے بعد کوئی اور ان عبادتوں کے اجر کو نہیں پا سکے گا، اور تم اپنے دور کے لوگوں میں سب سے افضل ہوگے، ماسوا اس کے جو اس جیسا عمل کرے (جو میں تم کو بتارہا ہوں) ؟ تم ہر نماز کے بعد تینتیس، تینتیس بار ” سبحان اللہ، الحمد للہ “ پڑھیں گے اور چونتیس بار ” اللہ اکبر “ کہیں گے، پھر ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : تم ” سبحان اللہ، الحمد للہ “ اور ” اللہ اکبر “ میں سے ہر کلمہ کو تینتیس بار پڑھو۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :843، صحیح مسلم رقم الحدیث :595، سنن ترمذی رقم الحدیث :410-3412، سنن نسائی رقم الحدیث : 1349)

تسبیح پڑھنے کا اجر و ثواب

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے صبح کی نماز کے بعد سو مرتبہ ” سبحان اللہ “ کہا یا سو مرتبہ ” لا الہ الا اللہ “ کہا تو اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔ (سنن نسائی رقم الحدیث :1350)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے ایک دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا تو اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6405، صحیح مسلم رقم الحدیث :2691، سنن ترمذی رقم الحدیث :3468، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :5091، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3798)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے ایک دن میں سو مرتبہ کہا : ” لا الہ الا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد و ہو علی کل شیئٍ قدیرٌ“ وہ اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ہے اور اس کی ایک سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے ایک سو گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور یہ کلمات اس کے لیے اس دن شام تک شیطان سے پناہ کا باعث رہیں گے اور کوئی شخص ان کلمات کے پڑھنے سے زیادہ افضل ذکر نہیں کرسکے گا، ہاں ! وہ شخص جس نے ان کلمات کو سو مرتبہ سے زیادہ پڑھا ہو۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :6403، سنن ترمذی رقم الحدیث : 2468، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3798)

آیا سو مرتبہ ” لا الہ الا اللہ “ پڑھنے کا اجر وثواب زیادہ ہے یا سو مرتبہ ” سبحان اللہ “ پڑھنے کا ؟

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :

مؤخر الذکر دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” سبحان اللہ وبحمدہ “ پڑھنا ” لا الہ الا اللہ “ الخ پڑھنے سے زیادہ افضل ہے، کیونکہ اول الذکر کے پڑھنے سے سمندر کے جھاگ برابر گناہ معاف ہوتے ہیں اور ثانی الذکر کے پڑھنے سے سو گناہ معاف ہوتے ہیں، حالانکہ سب سے افضل ذکر ” لا الہ الا اللہ “ پڑھنا ہے۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : افضل الذکر ” لا الہ الا اللہ “ ہے اور افضل الدعاء ” الحمد للہ “ ہے۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث : 3383، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3800)

اور ” صحیح بخاری “ کی اس حدیث میں بھی ہے کہ ایک دن میں سو مرتبہ ” لا الہ الا اللہ “ الخ پڑھنے سے افضل اور کوئی ذکر نہیں ہے ہاں ! جو شخص ان کلمات کو سو مرتبہ سے زیادہ پڑھے، اس کا جواب یہ ہے کہ ” لا الہ الا اللہ “ پڑھنا اس سے زیادہ افضل ہے کہ اس سے سو گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اور سو نیکیاں بھی ملتی ہیں اور اس میں غلاموں کو آزاد کرنے کا اجر وثواب بھی ہے جب کہ تسبیح پڑھنے کے اجر سے سمندر کے جھاگ کے برابر صرف گناہ معاف ہوتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرنے کا جو اجر وثواب ہے وہ تسبیح پڑھنے کے اجر سے اور گناہوں کو مٹانے کے اجر سے بہت زائد ہے، کیونکہ حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں آزاد کرنے والے کے اعضاء کو دوزخ سے آزاد کر دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2517، صحیح مسلم رقم الحدیث :1509، سنن ترمذی رقم الحدیث : 1541) اور چونکہ ” لا الہ الا اللہ “ پڑھنے سے دس غلاموں کو آزاد کرنے کا اجر ملتا ہے، اس سے معلوم ہوا جو شخص ایک دن میں سو مرتبہ ” لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ “ الخ پڑھتا ہے اس کا اجر وثواب دس بار دوزخ سے آزاد ہونے کو مستلزم ہے، اور یہ تسبیح کے اجر وثواب سے بہت زیادہ ہے کیونکہ ایک دن میں سو بار ” سبحان اللہ وبحمدہ “ پڑھنے سے سمندر کے جھاگ کے برابر گناہ معاف ہوتے ہیں لیکن یہ جہنم سے آزاد ہونے کو مستلزم نہیں ہے۔ نیز ” سبحان اللہ وبحمدہ “ کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے منزہ اور پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں اور وہ تمام صفات کمالیہ سے متصف ہے اور یہ ” لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد و ہو علی کل شیء قدیر “ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ موجود ہے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے شریک کی نفی ہے اور اس کے لیے وحدانیت اور ملکیت اور صفاتِ کمالیہ اور ہر چیز پر قدرت کا ثبوت ہے، نیز ” سبحان اللہ “ پڑھنے سے کوئی شخص اسلام میں داخل نہیں ہوتا اور ” لا الہ الا اللہ “

پڑھنے سے اسلام میں داخل ہوتا ہے، یہ کلمہء توحید ہے، کلمہء اخلاص ہے اور ایک قول ہے کہ یہی اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔

امام نسائی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابوسعید (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے رب ! مجھے وہ کلمات بتا جن میں سے تیرا ذکر کروں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کہیے کہ ” لا الہ الا اللہ “ اور اسی میں ہے کہ اگر سات آسمانوں اور سات زمینوں کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ” لا الہ الا اللہ “ کو دوسرے پلڑے میں رکھا تو ” لا الہ الا اللہ “ والا پلڑا بھاری ہوگا۔

علامہ ابن حجر اور علامہ ابن بطال کے نزدیک اذکارِ ماثورہ کے اجر وثواب کی بشارت صرف… نیکوکاروں کے لیے ہے بدکاروں کے لیے نہیں ہے

نیز علامہ ابن حجر لکھتے ہیں : علامہ ابن بطال نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ ان اذکار کی فضیلت ان نیک لوگوں کے لیے ہے جو دین دار ہوتے ہیں اور بڑے بڑے گناہوں (مثلاً سود کھانا، قتل کرنا، زنا کرنا، شراب پینا اور لواطت کرنا وغیرہ) سے پاک ہوتے ہیں اور ان اذکار کا اجر وثواب ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو اپنی شہوت کے تقاضوں پر اصرار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کی حدود اور اس کی حرمتوں کو ناحق پامال کرتے ہیں۔ (شرح البخاری لابن بطال ج 10 ج 134) علامہ ابن حجر لکھتے ہیں : اس قول کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے :

ام حسب الذین اجترحو السیات ان نجعلہم کالذین امنوا وعملوالصلحت سواء محیاہم و مماتہم ساء مایحکمون۔ (الجاثیہ :21)

ترجمہ : کیا جو لوگ برے کام کرتے ہیں انہوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم ان کو ان لوگوں کی مثل کردیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے، ان کا مرنا اور جینا برابر ہوجائے وہ لوگ یہ کیسا برا فیصلہ کررہے ہیں۔

(فتح الباری ج 12 ص 505-507، ملخصا و موضحا ومخرجا، دارالفکر، بیروت، 1420 ھ)

علامہ ابن حجر اور علامہ ابن بطال کی رائے پر مصنف کا تبصرہ

میں کہتا ہوں کہ جو لوگ سخت کبیرہ گناہوں پر اصرار کرتے ہیں اور ان میں منہمک اور مستغرق رہتے ہیں اور توبہ کیے بغیر ان گناہوں کو کرتے ہوئے مرجاتے ہیں، ان کو تو شاید دن میں سو بار ” لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ “ الخ پڑھنے سے یہ اجر وثواب اور دس بار دوزخ سے آزاد ہونے کا مرتبہ نہیں ملے گا، لیکن جو مسلمان ان بڑے گناہوں سے توبہ کرلے اور اخلاص کے ساتھ دن میں سو بار ان اذکار کو پڑھے اس کو یقینا ان اذکار کا اجر وثواب ملے گا نیز ان اذکار کو پڑھنے کی توفیق اسی شخص کو ہوگی جو کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہوگا اور اس کے دل و دماغ میں نیک کاموں سے متصف ہونے کا جذبہ ہوگا، نیز یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان اذکار کو پڑھنے پر جس اجر وثواب کی بشارت دی ہے اس میں کوئی قید نہیں لگائی کہ فلاں شخص یہ اذکار پڑھے گا تو اس کو اجر وثواب ملے گا اور فلاں شخص پڑھے گا تو اس کو اجر وثواب نہیں ملے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع اور عام ہے اس کو کون مقید کرسکتا ہے، جب کہ مغفرت اور رحمت کی زیادہ ضرورت گناہ گاروں کو ہے، نیوکار تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے ویسے ہی مالا مال ہیں۔ اور الجاثیہ :21 سے یہ استدلال کرنا درست نہیں ہے کہ نیوکار یہ اذکار پڑھیں گے تو ان کو اجر ملے گا اور بدکار پڑھیں گے تو ان کو اجر نہیں ملے گا، اس آیت کا تو صرف اتنا تقاضا ہے کہ نیکوکاروں اور بدکاروں کا مرتبہ اور مقام اور دنیا اور جنت میں ان کے درجات برابر نہیں ہوں گے، اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی نیک عمل کے جس ثواب کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے وعدہ فرمایا ہے وہ وعدہ نیکوکاروں کے حق میں تو پورا ہوگا اور بدکاروں کے حق میں پورا نہیں ہوگا، کیا فرض نماز کے پڑھنے سے نیک لوگوں سے تو فرضیت ساقط ہوگی اور بدکار لوگ نماز پڑھیں گے تو ان سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی ! علی ہذا القیاس دیگر فرائض ہیں، اسی طرح اذکار کا معاملہ ہے جو شخص بھی ذکر کرے گا اس پر اللہ اور رسول نے جس اجر کا وعدہ فرمایا اس کو وہ اجر ضرور ملے گا خواہ وہ نیکوکار ہو یا بدکار۔

” لا الہ الا اللہ “ اور ” سبحان اللہ “ پڑھنے کے اجر وثواب میں ایک اور فرق

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :

تسبیح کی فضیلت میں یہ حدیث ہے : جس شخص نے ایک دن میں سو بار ” سبحان اللہ وبحمدہ “ پڑھا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے، خواہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں، ان گناہوں سے مراد ہے جن گناہوں کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ ہو، کیونکہ جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہوتا ہے وہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتے، جب تک صاحب حق معاف نہ کر دے اور سمندر کی جھاگ جو فرمایا ہے اس سے کثرت میں مبالغہ مراد ہے، یعنی اس کے بہت گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

(عمدۃ القاری جز 24 ص 38، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1421 ھ)

علامہ عینی کی تقریر سے ایک اور وجہ سے یہ ظاہر ہوگیا کہ تسبیح پڑھنے کا اجر وثواب ” لا الہ الا اللہ “ الخ پڑھنے سے زائد نہیں ہے کیونکہ ہرچند کہ ” لا الہ الا اللہ “ پڑھنے سے سو گناہ معاف ہوتے ہیں، تاہم تسبیح سے بھی اکثر گناہ معاف ہوتے ہیں نہ کہ وہ جو حقیقۃً سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔

” ادبار السجود “ کے محامل

اس کے بعد فرمایا : اور نمازوں کے بعد (بھی) ۔

حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابوہریرہ اور حضرت حسن بن علی (رض) اور تابعین میں سے حسن بصری، نخعی، شعبی، اوزاعی اور زہری نے کہا : اور نمازوں کے بعد تسبیح پڑھنے سے مراد ہے : مغرب کی نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا اور ” ادبار النجوم “ (ستاروں کے ڈوبنے کے بعدض سے مراد ہے : نماز فجر سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنا۔ حدیث میں ہے :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مغرب کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا ” ادبارالسجود “ ہے۔ (الکشف والبیان ج 9 ص 107، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1422 ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : میں ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر تھا، آپ نے نماز فجر سے پہلے دو رکعت نماز پڑھی، پھر آپ نماز فجر پڑھنے مسجد چلے گئے، پھر آپ نے فرمایا : اے ابن عباس ! نمازِ فجر سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنا ” ادبار النجوم “ ہے اور مغرب کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا ” ادبار السجود “ ہے۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث :3271، المستدرک ج 1 ص 320)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے مغرب کے بعد کسی سے بات کرنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھی اس کی وہ نماز علیین میں لکھی جاتی ہے، حضرت انس نے کہا : آپ نے پہلی رکعت میں سورة الکافرون پڑھی اور دوسری رکعت میں سورة الاخلاص پڑھی۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :4833، مکتب اسلامی، بیروت)

علامہ ثعلبی نے لکھا ہے کہ ابن زید نے کہا کہ ” وادبار السجود “ سے مراد فرائض کے بعد نوافل ہیں۔

(الکشف والبیان ج 9 ص 107، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

ثمامہ بن عبداللہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحابِ فراست دو رکعت نماز مغرب سے پہلے پڑھتے تھے۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :3982)

ایک قول یہ ہے کہ ” وادبار السجود “ سے مراد وہ ذکر ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازوں کے بعد کرتے تھے، حدیث میں ہے :

حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرض نماز کے بعد پڑھتے تھے :

لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد و ہو علی کل شیئٍ قدیر، اللّٰہم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذالجد منک الجد۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :6330-6615، صحیح مسلم رقم الحدیث :593، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :4224، مصنف ابن ابی شیبہ ج 10 ص 231، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :1505، مسند احمد ج 4 ص 250، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :2005)

القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 40