امام بخاری کی بخاری میں امیر بخاری خالد بن احمد ذہلی کے ساتھ آزمائش

جب اہل وطن کو معلوم ہوا کہ امام بخاری وطن واپس لوٹ رہے ہیں تو انہیں بے حد خوشی ہوئی انہوں نے بخارا سے کئی منزل پہلے امام بخاری کی پیشوائی کے لیے خیمے نصب کر دیئے اور بڑے تزک و اہتمام اور شان و شکوہ سے امام بخاری کو شہر لےکر آئے ۔ امام بخاری نے بخارا میں درس قائم کر دیا اور اطمینان سے پڑھانے میں مصروف ہو گئے ۔

حاسدین نے یہاں بھی امام بخاری کا پیچھا نہ چھوڑا وہ خلافت عباسیہ کے نائب خالد بن احمد ذہلی والی بخارا کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ امام بخاری سے کہیے کہ وہ آپ کے صاحبزادے کو گھر آ کر پڑھایا کریں جب والی بخارا نے امام بخاری سے فرمائش کی تو آپ نے فرمایا: میں علم کو سلاطین کے دروازے پر لے جا کر ذلیل کرنانہیں چاہتا۔ جس شخص کو پڑھنے کی ضرورت ہے اس کو میرے درس میں آنا چاہیے۔ والی بخارا نے کہا: اگر میرا لڑکا درس میں آئے تو وہ عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں پڑھے گا آپ کو اسے علیحدہ پڑھانا ہوگا ۔ امام بخاری نے جواب دیا: میں کسی شخص کو احادیث رسول کی سماعت سے روک نہیں سکتا یہ جواب سن کر حاکم ناراض ہو گیا اور اس نے ابن الوقت علماء سے امام بخاری کے خلاف فتوی حاصل کر کے انہیں شہر سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔

امام بخاری اپنے وطن میں آ کر بے وطن ہونے پر بہت آزردہ ہوئے ۔ ابھی ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ خلیفہ نے والی بخارا خالد بن احمد ذہلی کو معزول کر دیا اور اسے گدھے پر سوار کراکے محل سے نکالا گیا اور قید خانہ میں بند کر دیا گیا جہاں وہ انتہائی ذلت اور رسوائی سے چند دن گزارنے کے بعد ہلاک ہو گیا ۔ اسی طرح جن لوگوں نے امیر بخاری کی معاونت کی تھی وو سب مختلف بلاوں میں گرفتارہوکر ہلاک ہو گئے ۔ ( تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۱.۳۳ تاریخ دمشق ج 55 ص 70-71 تہذیب الکمال ج16 ص 105-106 سیر اعلام النبلاء ج 10 ص 316-317 طبقات الشافعیہ الکبری ج 1 ص 441 ھدی الساری 484 مع فتح الباری دار المعرفہ بیروت)