سبب تالیف

عہد صحابہ و تابعین میں تدوین احادیث کا اہتمام نہیں تھا جس کی اصل وجہ تھی کہ ان لوگوں کو اپنے ضبط صدر اور حافظہ پرقوی اعتماد تھا البته اتباع تابعین کے عہد میں تدوین حدیث کا عام رواج ہو چکا تھا اور متعددجلیل القدر محدثین نے مجموعه احادیث ترتیب دے رکھے تھے ان کی کتابوں میں امام ابوحنیفہ کی کتاب الآثار امام مالک کی موطا جامع سفیان ثوری، مصنف ابن ابی شیبہ مصنف عبد الرزاق اور مسند احمد کی بہت شہرت تھی لیکن اس وقت تک حدیث کے موضوع پر جس قدر کتابیں معرض وجود میں آئی تھیں ان میں سے کسی کتاب میں بھی صرف احادیث صحیحہ لانے کا التزام نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان میں شاذ منکر مدلس اور معلل ہرقسم کی روایات جمع کر دی گئی تھیں ۔ اس وقت اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ ایک ایسا مجموعہ احادیث ترتیب دیا جائے جس میں صرف احادیث صحیحہ کو جمع کیا جائے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر امام بخاری کے استاد اسحاق بن راھویہ نے امام بخاری سے کہا: کاش تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن کو اسانید صحیحہ کے ساتھ جمع کرلو تاکہ صحیح مجرد کا مجموعہ تیار ہو جائے۔

اسی زمانہ میں امام بخاری نے خواب دیکھا کہ وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوئے پنکھاجھل کر مکھیاں اڑارہے ہیں ۔ اس خواب کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ امام بخاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی باتوں کو دور کریں گے۔ اس تعبیر کے بعد امام بخاری نے احادیث صحیحہ جمع کرنے پختہ عزم کرلیا۔ (مرقاة المفاتیح ج1 ص 13 مکتبہ امدادیہ ملتان )

بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ صحیح بخاری کی تالیف کے صرف یہی دو سبب تھے لیکن اگر نظر غائر سے صحیح بخاری کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ تالیف صحیح کا مقصد صرف جمع احادیث ہی نہیں بلکہ تراجم پر استدلال اور احادیث سے مسائل کا استنباط بھی ہے کیونکہ بسا اوقات امام بخاری ترجمہ ابواب قائم کرتے ہیں اور اس کے تحت کوئی حدیث ذکر نہیں کرتے، مثلا کتاب العلم میں ایک عنوان قائم کیا:”باب العلم قبل القول والعمل لقول الله عزوجل فاعلم انه لا اله الا الله فبدء بالعلم الخ صحیح البخاری کتاب العلم باب:۱۰) اس باب کے تحت امام بخاری نے اپنی سند کے ساتھ حدیث ذکر نہیں کی بلکہ ترجمة الباب پر صرف مذکورہ آیت سے استدلال کیا ہے کیونکہ اس میں الله تعالی نے پہلے علم کا اور پھر ” لا اله الا الله“ کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح کتاب الزکوتہ میں ایک باب قائم کیا:”لا يقبل الله صدقة من غلول ولا يقبل الا من کسب طيب لقوله تعالى قول معروف و مغفرة خير من صدقة يتبعها اذى والله غنی حلیم“۔ (صحیح البخاری کتاب االزکوتہ باب :7)

اس آیت کریمہ پر یہ بات ختم کردیا گیا اور اس باب کے اثبات کے لیے امام بخاری کوئی حدیث نہیں لائے بلکہ ترجمة الباب کو اس آیت کریمہ سے التزاما ثابت کیا ہے کہ جب مال حلال سے صدقہ بھی بے بہ وجہ احسان مقبول نہیں ہے تو مال حرام سے دیا ہوا صدقہ کب قبول ہوسکتا ہے۔ ان شواہد سے معلوم ہوا کہ تالیف صحیح سے امام بخاری کا مقصد صرف جمع احادیث ہی نہیں بلکہ مسائل فقہیہ میں اپنے مختار پر استدلال بھی ہے۔

استدلال على المسائل کے علاوہ تالیف صحیح کی تیسری غرض احادیث سے مسائل کا استنباط ہے کیونکہ ایک حدیث کو امام بخاری متعدد جگہ لاتے ہیں اور بعض دفعہ تو ایک حدیث کو انہوں نے سولہ سولہ مقامات پر ذکر کیا ہے اگر ان کا مقصد صرف احادیث صحیحہ کا جمع کرنا ہوتا تو وہ ایک بار حدیث کے ذکر کر دینے سے پورا ہوسکتا تھا اور جب وہ ایک حدیث کو مختلف ابواب کے تحت متعدد جگہ لاتے ہیں تو اس سے ان کا مقصد ان مسائل کا استنباط ہوتا ہے جن کے تحت وہ اس حدیث کو ذکر کرتے ہیں مثلا ایک موقع پر بعض صحابہ نے عجلت کی وجہ سے پیروں کو دھونے کی بجائے فقط مسح کرلیا تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا:”ويل للاعقاب من النار ” ان حدیث کا امام بخاری نے دو جگہ ذکر کیا ہے ایک جگہ” باب من رفع صوته بالعلم “ اور دوسری جگہ باب غسل الرجلين ولا يمسح على القدمين“ کے تحت گویا اس حدیث سے امام بخاری نے دومسئلوں کا استنباط کیا ایک بلند آواز سے علم کی بات کہنے کا دوسرے پیروں پر مسح کی عدم کفایت کا۔

بہرحال اس تفصیل سے ظاہر ہوگیا کہ تالیف صحیح سے امام بخاری کا مقصود جمع احادیث کے علاوہ مسائل فقہیہ میں اپنے مختار پر استدلال اور احادیث سے مسائل کا استنباط بھی ہے۔