صحیح البخاری : شرائط
شرائط
امام بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث وارد کرنے کی یہ شرط مقرر کی ہے کہ ان کے شیخ سے لے کر صحابی تک تمام راوی ثقہ اور متصل ہوں۔ ثقہ کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی مسلم عادل كامل الضبط والاتقان اور کثیر الملازمتہ مع الشیخ ہوں۔اگر راوی حدیث قلیل الملازمة مع الشیخ ہوں تو ان کی روایت بھی اخذ کر لیتے ہیں، لیکن ایسے راویوں سے امام بخاری انتخاب کرتے ہیں، استيعاب نہیں کرتے نیز ثقہ راویوں کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ وہ اپنے سے اوثق رواتہ کی مخالفت میں نہ کریں . اور نہ ہی ان میں کوئی علت خفیہ قادحہ ہو (توجیہ النظرص 94) اور متصل کا مطلب یہ ہے کہ ہر راوی یا تو اپنے شیخ سے سمعت” یا “حدثنا کے صیغہ کے ساتھ سماع حدیث کی تصریح کرے اور ایساصیغہ لائے جو بہ ظاہر سماع پر دلالت کرے مثلا” عن فلان ” ان فلانا قال اس دوسری شکل میں ضروری ہے کہ راوی کی مروی عنہ سے ملاقات ثابت ہو اور وہ راوی مدلس نہ ہو۔
امام بخاری کی شرط ملاقات پر امام مسلم نے اعتراض کیا کہ پھر امام بخاری کو چاہیے کہ وہ حدیث معنعن کو بالکل قبول نہ کریں، کیونکہ لقاء کی شرط تیقن سماع کے لیے لگائی گئی ہے اور محض لقاء سے سماع لازم نہیں آتا کیونکہ جائز ہے کہ ملاقات کے باوجود راوی نے مردی عنہ سماع نہ کیا ہو اس اعتراض کے دو جواب ہیں اول یہ کہ لقاء کے باوجود اگر سماع نہ ہو تو راوی مدلس ہوگا اور مفروض یہ ہے که راوی مدلس نہ ہو ثانی: یہ کہ امام بخاری راوی اور مروی عنہ میں ملاقات کی شرط لگاتے ہیں اور امام مسلم معاصرت کی اور عدم سماع کا احتمال دونوں میں جاری ہوتا ہے اور بلاریب ثبوت لقاء کی شرط معاصرت کی شرط کی بہ نسبت سماع سے زیادہ قریب ہے.
قاضی ابوبکر بن عربی نے بیان کیا ہے کہ امام بخاری کی شرط یہ ہے کہ اولا حدیث کو دو صحابی روایت کریں یا پھر ہر صحابی سے دو شخص روایت کریں۔ پھر ان میں سے ہر ایک سے دو دوشخض روایت کریں لیکن قاضی ابوبکر کایہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں جو پہلی حدیث” انما الاعمال بالنيات درج کی ہے وہ صرف حضرت عمر سے مروی ہے اور حضرت عمر سے صرف علقمہ نے روایت کی اور علقمہ سے صرف محمد بن ابراہیم نے اور ان سے صرف یحیی بن سعید نے۔