ہر مسلک کے اصول پر اس کی کتاب کی روایت کی تحقیق کرنا لازمی ہے
ہر مسلک کے اصول پر اس کی کتاب کی روایت کی تحقیق کرنا لازمی ہے ورنہ استدلال کرنا باطل ہے….!!!
کچھ دن سے فیس بک سے دیکھ رہا تھا کہ کچھ حضرات روافض کی کتب جلاء العیون سے یہ بات ثابت کرنا چاہا رہے تھے کہ کربلا میں پانی بند کرنا جھوٹ ہے اور یہ بات روافض کی کتاب سے ثابت ہے۔اور اسی دیکھا دیکھی میں انہوں نے اہل سنت کے ان خطباء کو بھی نشان بنایا جو پانی بندش کی روایات پڑھتے ہیں۔ ثبوت کے لئے کچھ حضرات کے سکرین شاٹ نیچے موجود ہیں۔
ان حضرات نے استدلال کے طور پر شیعہ عالم باقرمجلسی کی کتاب “جلاءالعیون” سے ایک روایت پیش کی ہوئی تھی اب اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی کسی شیعہ عالم نے کر دیا ہے۔ وہ روایت اس طرح تھی:
“امام زین العابدین سے منقول ہےکہ حضرت نے اس شب حکم دیا کہ خیمہ ہائے حرم محترم متصل ایک دوسرے کے برپا کئے گئے اور ان کے گرد خندق کھودی گئی اور لکڑیوں سے بھر دیا کہ جنگ ایک طرف سے ہو ا اور علی اکبر کو مع تیس سوار اور بیس پیادہ کے بھیجاکہ وہ مشک آب نا نہایت خوف و اضطراب بھر لائے۔ حضرت نے اہل بیت اور اصحاب سے فرمایا : پانی پیو کہ یہ آخری توشہ تمہارا ہےاور وضو و غسل کرو اور اپنے کپڑوں میں خوشبو لگاؤ۔۔۔الخ
[جلاء العیون سوانح چہاردہ معصومین ص 227]
یہ روایت مجھے کچھ عجیب سے لگی پھر تحقیق کی غرض سے باقر مجلسی کی جلاءالعیون نیٹ سے ڈون لوڈ کی جو فارسی میں ہے اور یہ روایت مجھے اس کے صفحہ 651 پر ملی۔اس کتاب کے محقق نے اس روایت کی تخریج پر شیعہ محدث ابن بابویہ قمی کی کتاب “الامالی للصدوق” کے صفحہ 133 کا حوالہ لگایا ہوا تھا ۔ پھر میں نے خود ذاتی مزید تحقیق کی تو باقر مجلسی نے اسی روایت کو خود ابن بابویہ قمی کی کتاب سے باسند اپنی کتاب بحارالانوار میں بھی لکھا ہوا تھا۔ جب روایت کو مکمل پڑھا تو پتہ چلا مجلسی نے جلاءالعیون میں وہ روایت مفہوما بیان کی ہوئی تھی جب کہ مکمل روایت بہت ہی طویل تھی۔
خیر اب آتے ہیں اس روایت کی طرف کہ کیا یہ راویت شیعہ اصول کے مطابق صحیح ہے یا نہیں..!!
ابن بابویہ شیعہ محدث کی سند اس طرح ہے:
حدثنا الشیخ الفقيه ابوجعفر محمد بن علي بن الحسین بن موسي ابن بابویه القمي رحمه اللہ قال حدثنا محمد بن عمر البغدادي الحافظ رحمه اللہ ، عن الحسن بن عثمان بن زياد التستري من كتابه، عن إبراهيم بن عبيدالله بن موسى بن يونس ابن أبي إسحاق السبيعي قاضي بلخ قال: حدثتني مريسة بنت موسى بن يونس ابن أبي إسحاق وكانت عمتي قالت: حدثتني صفية بنت يونس بن أبي إسحاق الهمدانية وكانت عمتي قالت: حدثتني بهجة بنت الحارث بن عبد الله التغلبي، عن خالها عبد الله بن منصور، وكان رضيعا لبعض ولد زيد بن علي قال: سألت جعفر بن محمد بن علي ابن الحسين فقلت: حدثني عن مقتل ابن رسول الله صلى الله عليه واله فقال: حدثني أبي عن أبيه عليهما السلام ۔۔الخ
[الامالی للصددق ص 133]
[بحارالانوار للمجلسی ج 44 ص 311]
اس سند میں مجہول رواۃ کی بھر مار ہے شیعہ کی چوٹی کی کتب رجال میں ان سند کے میں موجود رواۃ کا ذکر تک نہیں ملتا میں نے بڑی کوشش کی ڈھونڈنے کی لیکن مجھے ان کے مفصل تذکرے اور توثیق شیعہ کتب رجال سے نہ مل سکی۔لیکن ایک متاخر شیعہ عالم “شیخ علی نمازی الشاہرودی” جن کی وفات 1405 ہجری میں ہوئی ہے اس نے اپنی ایک کتاب “مستدرکات علم رجال الحدیث” میں اس سند کے کچھ رواۃ کا ذکر کیا ہوا ہے لیکن وہ بھی بنا کسی توثیق کے ساتھ جیسے خواتین کی فہرست میں راویہ بہجۃ بنت الحارث بن عبداللہ التغلبی کے بارے میں لکھتے ہیں:
بہجۃ بنت الحارث بن عبداللہ التغلبی : ہی من رواۃ الحدیث المفصل عن الصادق (ع) فی مقتل الحسین (ع)، کما فی امالی صدوق مج 30، و تاتی فی صفیۃ۔
[مستدرکات علم رجال الحدیث رقم 80]
ایسے ہی ابراہیم بن عبیداللہ بن موسی بن یونس بن ابی سحاق قاضی بلخ کے بارے میں لکھتے ہیں:
ابراہیم بن عبیداللہ بن موسی بن یونس بن ابی سحاق قاضی بلخ: لم یذکردہ وقع فی طریق الصدوق فی الامالی فی حدیث مقتل الحسین (علیہ السلام)المفصل ، عن محمد بن عمر البغدادی عن الحسن بن عثمان بن زیاد ، عنہ مریسۃ بنت موسی بن یونس۔
[مستدرکات علم رجال الحدیث ج1 ص 174 رقم 336]
ایسے ہی الحسن بن عثمان بن زیاد کے بارے میں لکھتے ہیں:
الحسن بن عثمان بن زیاد التستری، ابوسعید: لہ کتاب فی مقتل الحسین (علیہ السلام)، نقل الصدوق فی امالیہ مج 30 عن محمد بن عمر الجعابی عنہ، عن ابراہیم بن عبیداللہ بن موسی الحدیث المفصل فی مقتل الحسین علیہ السلام۔
[مستدرکات علم رجال الحدیث ج 2 ص 429 رقم 3664]
ایسے ہی صفیہ بنت یونس ، مریسہ بنت موسی اور منصور بن عبداللہ کی توثیق کا کوئی پتہ نہیں شیعہ کتب رجال میں۔ اس لئے شیعہ کتب رجال سے یہ روایت درجہ صحت کو نہیں پہنچتی اس لئے ان سے استدلال کرنا درست نہیں۔
لیکن ہم اہل سنت کی رجال کی کتب سے ثابت ہے کہ اس روایت کی سند میں “الحسن بن عثمان بن زیاد التستری” جھوٹا اور احادیث گھڑنے والا راوی موجود ہے۔ امام ابن عدی اس کے بارے میں کہتے ہیں:
الحسن بن عثمان بن زياد بن حكيم أبو سعيد التستري كان عندي يضع ويسرق حديث الناس سألت عبدان الأهوازي عنه فقال هو كذاب
[الکامل لابن عدی ج 2 ص 345 رقم 478]
اور امام ابن حجر امام ابوعلی النیشاپوری سے لکھتے ہیں:
وقال أبو علي النيسابوري هذا كذاب يسرق الحديث
[لسان المیزان ج 2 ص 219 رقم 968]
لہذا اہل سنت کے نزدیک تو یہ روایت بالکل جھوٹی ہے باقی شیعہ کتب سے یہ روایت مجہولین سے بھرپور ہے اس لئے شیعہ کے نزدیک بھی یہ روایت صحیح نہیں۔
اس لئے یہ روایت قابل استدلال ہرگز نہیں ہے اس لئے جو لوگ روافض کے مقابلے میں کربلا میں جو پانی کی بندش کو جھوٹا قرار دیتے ہیں اصل میں ایسے لوگ ہی حضرت عباس بن علی اور حضرت علی اصغر بن حسین رضی اللہ عنہما کی شہادت کے منکر ہیں کیونکہ ان دونوں پاکیزہ ہستیوں کی کربلا میں پانی کی بندش کی وجہ سے شہادت ہوئی تھی ۔ لہذا ہم روافض کے مقابلے میں ناصبی ہرگز نہیں بننا اس لئے ہم نے محبت صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم کو ساتھ ملا کر چلنا ہے۔ یہ روایت ہم کو اہل بیت رضی اللہ عنہم کے خلاف لگی اس لئے ہم نے اس کی تحقیق کی باقی ہمارا عقیدہ اہلسنت والا ہے۔ الحمدللہ
لہذا خلاصہ تحقیق یہ ہے کہ یہ روایت نہ اہل سنت کے نزدیک صحیح ہے اور نہ ہی اہل تشیع کے نزدیک اس لئے اس سے استدلال کرنا باطل ہے۔
واللہ اعلم
خادم اہل بیت و صحابہ رضی اللہ عنہم
✍️عسقلانی الشافعی غفراللہ لہ
9 ستمبر 2021ء