اعتقادی مسائل کا حل اورفقہی جزئیات
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
اعتقادی مسائل کا حل اورفقہی جزئیات
سوال: کیا فقہی جزئیات یا اصول فقہ سے کلامی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے؟
جواب: فقہی کتابوں میں بعض اعتقادی مسائل کا ذکر ہوتا ہے۔ وہ مسائل اگر ضروریات دین یا ضروریات اہل اہل سنت کے قبیل سے ہیں، یااہل سنت وجماعت کے اجماعی عقائد ہیں تو مسالک اربعہ کی فقہی کتابوں میں یکساں حکم مرقوم ہوگا۔
باب اعتقادیات میں بھی بعض ظنی اور غیر اجماعی مسائل ہیں،ان میں اختلاف ہو سکتا ہے، اور ایک ہی فقہی مذہب کے ماننے والوں میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے۔
فقہی جزئیات یعنی باب فقہ کے اجتہادی مسائل سے علم کلام کے غیر منصوص مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔باب فقہ کے اجتہادی جزئیات فقہی اصول وقوانین کے تابع ہوتے ہیں اور چاروں مذاہب فقہیہ کے فقہی اصول وقوانین یکساں نہیں۔اگر فقہی اصول وضوابط کی روشنی میں علم کلام کے غیر منصوص مسائل کا حکم بیان کیا جائے تو باب اعتقادیات میں بھی چار مسلک ہوجائیں گے،حالاں کہ اہل سنت وجماعت کے اعتقادی مسائل یکساں ہیں۔
نیز فقہی اصول وضوابط کو مجتہد مطلق عملی مسائل کے حل کے واسطے ترتیب دیتے ہیں۔ اعتقادی مسائل کے حل کے لیے علم کلام کے مستقل اصول وضوابط ہیں، گرچہ وہ منتشر ہیں۔
اصول فقہ میں بہت سے قطعی قوانین ہیں،جو مذہب اسلام کے قطعی دلائل سے ماخوذ ہیں اور اہل اسلام کا اس میں اختلاف نہیں ہوتا۔کلامی مسائل کے حل کے واسطے ایسے قطعی اور اجماعی اصول وقوانین سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ یہ قوانین فقہی مسائل کے ساتھ خاص نہیں،بلکہ مذہب اسلام کے قطعی احکام ہیں جو تمام مذہبی مسائل پر منطبق ہوتے ہیں، خواہ اعتقادی مسائل ہوں،یاعملی مسائل ہوں۔
مثلا علم کلام میں بیان کیا جائے کہ جو حکم قرآن مقدس کی قطعی الدلالت بالمعنی الاخص آیت طیبہ سے ثابت ہو، وہ حکم ضروریات دین سے ہے۔اس کا انکار کفرہے۔اب اصول فقہ کی کتابوں میں اسے تلاش کرنا ہے تو فقہائے کرام کی خاص اصطلاح کو معلوم کرنا ہوگا۔
قطعی الدلالت بالمعنی الاخص کو فقہائے احناف ”مفسر“کہتے ہیں اور مذاہب ثلاثہ کے فقہا اسی کو ”نص“کہتے ہیں، جب کہ حنفی اصول فقہ میں صرف قطعی الدلالت بالمعنی الاعم کو ”نص“ کہا جاتا ہے۔ علم کلام میں اسی کوقطعی الدلالت بالمعنی الاخص کہا گیا اور اصول فقہ میں اسی کو مفسر اور نص کہا گیا۔
قطعی الدلالت بالمعنی الاخص کی توضیح وتشریح کے لیے اور ا س کے حکم کی وضاحت کے لیے اصول فقہ کی کتابوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ فقہائے کرام اپنی اصطلاح میں قطعی الدلالت بالمعنی الاخص کومفسر اورنص کا لقب دیتے ہیں،پس یہ وضاحت کرنی ہوگی کہ متکلمین نے جس کو قطعی الدلالت بالمعنی الاخص کہا ہے،حنفی اصول فقہ میں اسی کو”مفسر“کہا جاتا ہے،اور فقہائے ثلاثہ کے یہاں اسی کونص کہا جاتا ہے۔اس کے بعد قطعی الدلالت بالمعنی الاخص کے حکم کی وضاحت کے لیے مفسر اور نص کے حکم کو بیان کیا جاسکتا ہے۔
الحاصل کلامی مسائل کا حل علم کلام کے اصول وضوابط کی روشنی میں ہوگا۔اجتہادی فقہی جزئیات اور فقہی اصول وضوابط چاروں مذاہب کے یکساں نہیں،نیز یہ بالکل بدیہی امر ہے کہ اصول فقہ عملی مسائل کے حل کے لیے ہیں۔قطعی مسائل میں اجتہاد کا حکم نہیں۔
ظنی مسائل یا غیر منصوص مسائل کوحل کرنے کے واسطے حضرات ائمہ مجتہدین علیہم الرحمۃو الرضوان نے اصول وضوابط مرتب فرمائے۔ان اصول وضوابط میں تمام اصول وقوانین قطعی نہیں،بلکہ بہت سے ظنی اصول وضوابط بھی ہیں،اسی لیے اجتہاد کے اصول وضوابط میں بھی حضرات ائمہ مجتہدین کے درمیان اختلاف ہے۔جب اصول وقوانین میں اختلاف ہے تو ان کی روشنی میں مستنبط ہونے والے فقہی جزئیات میں بھی اختلاف ہوئے۔
اعتقادی مسائل کا حل علم کلام کے اصول وضوابط کے مطابق ہوگا،ورنہ مذاہب اربعہ کے اعتقادی مسائل بھی اسی طرح مختلف ہوجائیں گے،جیسے فقہی مسائل جدا گانہ ہیں، حالاں کہ ہرمسلمان جانتا ہے کہ احناف ومالکیہ اور شوافع وحنابلہ کے اعتقادی مسائل یکساں ہیں۔صرف ظنی واجتہادی مسائل میں اختلاف ہے۔
فقہیات اوراعتقادیات کے دلائل بھی جداگانہ ہیں۔
فقہ کے چار دلائل ہیں۔قرآن وحدیث اوراجماع وقیاس۔
اعتقادیات کے بھی چار دلائل ہیں۔ قرآن وحدیث اور اجماع وعقل صحیح۔
باب فقہ میں عقل صحیح دلیل نہیں،اورباب عقائدمیں قیاس دلیل نہیں۔
جب قیاس باب اعتقادیات میں دلیل نہیں تو قیاسی مسائل سے اعتقادی مسائل کا حل کیسے ہو گا۔قیاسی مسائل کی بنیاد ہی قیاس پر ہوتی ہے۔وہ قرآن وحدیث میں منصوص نہیں ہوتا۔نہ قیاس سے اعتقادی مسئلہ حل ہو گا,نہ قیاسی مسائل سے حل ہو گا۔
بعض اہل علم اعتقادی مسائل کوبھی فقہ حنفی کے اجتہادی جزئیات سے حل فرماتے ہیں۔ اس وجہ سے اعتقادی مسائل میں لغزش واقع ہوجاتی ہے۔وہ خود بھی عند الشرع ماخوذقرار پاتے ہیں اوربہت سے قارئین بھی غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں۔
سواد اعظم اہل سنت وجماعت مجموعی طورپرہرگز ضلالت وگمرہی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔یہ فضل الٰہی ہے۔ چند لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتے ہیں،پھر ان لوگوں کے متبعین کی ایک تعداد ہوسکتی ہے۔
قاسم نانوتوی کو دیوبندی جماعت امام المتکلمین قراردیتی ہے۔ اس نے ختم نبوت کا ایک نیا معنی ایجادکیا اور خود بھی اقرار کیا کہ یہ نیا معنی ہے۔ اس وقت برصغیرکا کوئی دیوبندی یا غیر دیوبندی عالم اس کے ساتھ نہ تھا۔کسی نے اس کے جدید معنی کی تائید نہ کی، لیکن آج اس کے متبعین کی ایک تعداد موجود ہے۔ گرچہ آج بھی اس کے بیان کردہ معنی کو دیابنہ نہیں مانتے ہیں،لیکن نانوتوی کو مومن مانتے ہیں۔کافرکلامی کومومن ماننا ہی کفرکلامی ہے۔
ہمیں بہت افسوس ہے کہ ہمارے درمیان بھی بعض اعتقادی مسائل کی تحقیق میں اہل علم مختلف ہوگئے۔مستقبل میں یہ ناسور بن سکتا ہے۔لوگ مختلف طبقات میں منقسم ہوسکتے ہیں۔
نوجوان علمائے کرام سے گزارش ہے کہ علم کلام کی جانب توجہ دیں،تاکہ صحیح وغلط سمجھنے کی قوت پیدا ہو۔ سواد اعظم بفضل الٰہی حق پر رہے گا۔
مسلمانان اہل سنت وجماعت سے بھی گزارش ہے کہ سواد اعظم اہل سنت وجماعت جس جانب ہو، اسی کو اختیار کریں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:10:ستمبر 2021