مولانا چمن زمان نجم القادری صاحب کی تحریر میں دفاع کردہ روایت پر تحقیقی تبصرہ
مولانا چمن زمان نجم القادری صاحب کی تحریر میں دفاع کردہ روایت پر تحقیقی تبصرہ…!!
آج کل مولانا چمن زمان صاحب کی مولانا آصف اشرف جلالی صاحب سے کافی ان بن رہتی تو ویسے ایک دوسرے پر فتوے بھی لگائے ہوئے ہیں۔ خیر ہمیں اس سے غرض نہیں ان کی آپس میں کیا چل رہی ہے۔
آج مجھے آج ایک دوست نے مولانا چمن زمان صاحب کی تحریر سنڈ کی جس میں انہوں نے مولانا اقبال چشتی صاحب کی بیان کردہ ایک روایت کا دفاع کیا ہوا تھا اور ساتھ کے ساتھ مولانا آصف جلالی صاحب کو بھی خاصہ تنقید کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔وہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق تھی جو یہ ہے:
لو اجتمع الناس على حب علي بن أبي طالب لما خلق الله النار
یعنی اگر لوگ حب مولا علی بن ابی طالب پہ جمع ہو جاتے تو اللہ جل و علا جہنم نہ بناتا۔
مولانا چمن صاحب نے اس روایت کی تخریج کے لئے الفردوس للدیلمی ج3 ص 373، مناقب الخوارزمی ص 67 اور ینابیع المودۃ ج1 ص 149 کے حوالے دیے ہیں اپنی تحریر میں۔ جو سکرین شارٹ کی صورت میں پوسٹ کے نیچے موجود ہے۔
اس فقیر کے پاس مسندالدیلمی موجود نہیں ہے لیکن علامہ الخوارزمی نے اسی روایت کو امام دیلمی کی سند سے روایت کیا ہوا ہے اپنی کتاب المناقب میں اور یہ کتاب فقیر کے پاس ہے اس کی مکمل سند اس طرح ہے:
وأخبرني شهردار هذا اجازة ، أخبرنا أبي ، حدثنا أبوطالب الحسيني ، حدثنا أحمد بن محمد بن عمر الفقيه الطبري ، حدثني أبوالفضل محمد بن عبدالله الشيباني ، حدثنا ناصر بن الحسين بن علي ، حدثنا محمد بن منصور ، عن يحيى بن طاهر اليربوعي ، حدثنا أبومعاوية ، عن ليث بن أبي سليم ، عن طاوس ، عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله : لو اجتمع الناس على حب علي بن أبي طالب لما خلق الله النار
[المناقب الخورزمی ص 54 رقم 39]
الحمدللہ اس روایت کی مکمل سند مل گی ہے اور اس روایت کا ماخذ سب کتب میں ایک ہی ہے وہ ہے مسندالدیلمی ۔ لہذا مکمل سند ملنے کے بعد اب اس سند کے رواۃ پر تحقیق کرنا آسان ہوگیا ہے۔
سب سے پہلے ہم چلتے ہیں امام ابن عراق کی طرف۔
امام ابن عراق نے اس روایت کو اپنی کتاب میں درج کر کے اس میں ابوالفضل محمد بن عبداللہ الشیبانی راوی کی نشان دہی کی جس کا ثبوت یہ ہے:
حديث لو اجتمع الناس على حب على بن أبى طالب لما خلق الله النار ( مى ) حديث ابن عباس ( قلت ) لم يبين علته وفيه أبو المفضل محمد بن عبد الله الشيبانى الكوفى والله أعلم
[تنزيه الشريعة المرفوعة ج 1 ص 339 رقم 154]
اور خود امام ابن عراق اس راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
محمد بن عبد الله بن المطلب أبو الفضل الشيبانى الكوفى عن البغوى وابن جرير دجال يضع الحديث
[تنزيه الشريعة المرفوعة ج 1ص 117 رقم 166]
لہذا یہ راوی امام ابن عراق کے نزدیک دجال اور احادیث گھڑنے والا ہے۔
اور امام دارقطنی کے نزدیک یہ راوی روافض کے لئے احادیث گھڑتا تھا جس کا ثبوت یہ ہے:
وكان يروي غرائب الحديث وسؤالات الشيوخ فكتب الناس عنه بانتخاب الدارقطني ثم بأن كذبه فمزقوا حديثه وأبطلوا روايته وكان بعد يضع الأحاديث للرافضة
[تاریخ بغداد ج 5 ص 466 رقم 3010]
امام حمزہ بن محمد بن طاہر الدقاق کے نزدیک بھی یہ راوی احادیث گھڑتا تھا جس کا ثبوت یہ ہے امام خطیب بغدادی لکھتے ہیں:
سألت حمزة بن محمد بن طاهر الدقاق عن أبي المفضل فقال كان يضع الحديث
[تاریخ بغداد ج 5 ص 466 رقم 3010]
امام ابوالقاسم الازہری کے نزدیک یہ کذاب دجال راوی ہے اور یہ احادیث چوری کیا کرتا تھا جیسے امام خطیب لکھتے ہیں:
وقال لي الأزهري كان أبو المفضل دجالا كذابا
[تاریخ بغداد ج 5 ص 466 رقم 3010}
قال لي الأزهري وقد كان الدارقطني انتخب عليه وكتب الناس بانتخابه على أبي المفضل سبعة عشر جزءا وظاهر أمره أنه كان يسرق الحديث
[تاریخ بغداد ج 5 ص 466 رقم 3010]
امام ذہبی کے نزدیک بھی یہ کذاب راوی ہے جس کا ثبوت یہ ہے:
حديث تختموا بالعقيق فإنه ينفي الفقر فيه محمد بن عبد الله الشيباني كذاب
[تلخيص كتاب الموضوعات لابن الجوزي ص 269 رقم 715]
اس راوی کی ادنی سی توثیق بھی محدثین کرام کے نزدیک ثابت نہیں لہذا خلاصہ تحقیق یہ ہے کہ یہ روایت جھوٹی و موضوع ہے اور مولانا چمن زمان صاحب کا مولانا اقبال چشتی کی بیان کی گی اس روایت کا دفاع کرنا باطل و غلط ہے۔ لہذا اب جو حق بات واضح ہو گی ہے اس روایت کے حوالے سے تو مولانا اقبال چشتی صاحب اور مولانا چمن زمان صاحب کو اس بات سے توبہ و رجوع کرنا چاہیے جو انہوں نے عوام کے سامنے جھوٹی روایت کو بیان کیا ہے۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس طرح کی جھوٹی روایات سے بلند و بالا ہیں۔
واللہ اعلم
خادم صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم
✍️عسقلانی الشافعی غفراللہ لہ
10 ستمبر 2021ء