مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

فقہی جزئیات اور اعتقادی مسائل

 

(1)مجوسی لوگ دوخدا مانتے ہیں۔ خالق خیر کو یزدان کہتے ہیں او ر خالق شر کو اہر من کہتے ہیں۔ یہ بات بدیہی ہے کہ خدا ایک ہی ہے۔ دو خدا کا وجود ہی نہیں۔

 

چوں کہ مجوسیوں کے عقیدہ کے مطابق یزدان اچھائیوں کو پیدا کرنے والا ہے،پس اگرزید یزدان کے بارے میں زید کہے کہ:”یزدان نے انسانی دلوں میں نیکی،صداقت، انصاف، حسن سلوک کا جذبہ پیدا کیا۔ انسانوں کو حسن عطاکیا۔انسانوں کے کھانے کے لیے قسم قسم کے پھل پیدا کیا،اور میں اسی یزدان کو جانتا ہوں جو ان خوبیوں کا مالک ہو“۔

 

جب مفتی اسلام سے زید کے بارے میں سوال ہوتومفتی کہے کہ زید پر کوئی شرعی حکم عائد نہیں ہوتا۔مفتی اس طرح وضاحت پیش کرے:

 

”زید نے کہا ہے کہ میں اسی یزدان کو جانتا ہوں جو ان خوبیوں کا مالک ہو۔

اب اگر کوئی یزدان واقعتاً ایسا ہے تو یہ اس کی تعریف ہوئی،اور نہیں ہے تو اس کی تعریف نہیں ہوئی۔جس کی نظیر فقہ کا یہ مسئلہ ہے کہ: کسی کی بڑی چھوٹی دولڑکیا ں ہوں۔بڑی کا نام خالدہ ہو، اورچھوٹی کا نام ساجدہ ہو، اورباپ نکاح کے وقت یہ الفاظ اداکرے کہ:میں نے ساجدہ اپنی بڑی لڑکی کا نکاح کیا تو نکاح بڑی چھوٹی کسی سے منعقد نہیں ہوگا۔

 

فتاویٰ عالم گیری ج۱ ص ۰۷۲مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور میں ہے:

(لرجل بنتان کبری عائشۃ وصغری فاطمۃ -وقال:زوجت ابنتی الکبری فاطمۃ لا ینعقد علی احداہما -کذا فی الظہیریۃ)

کسی آدمی کی دوبیٹیاں ہوں۔ بڑی کا نام عائشہ ہو، چھوٹی کا نام فاطمہ۔وہ کہے کہ میں نے اپنی بڑی بیٹی فاطمہ کا نکاح کردیا تو عائشہ وفاطمہ کسی کا نکاح منعقد نہیں ہوگا،جیسا کہ ظہیریہ میں ہے۔

 

(لانہ لیس لہ ابنۃ کبری بہذا الاسم)

کیوں کہ اس نام سے اس کی کوئی بیٹی نہیں جو بڑی ہو“۔

 

(اس فتویٰ کا مفہوم یہ ہوا کہ چوں کہ ایسا کوئی یزدان ہے ہی نہیں تو اس کی تعریف بھی نہیں ہوئی۔ معبودان باطل کی تعریف وتوصیف قابل اعتراض ہے۔ جب ایسا کوئی یزدان ہے ہی نہیں جو ان خوبیوں کا مالک ہو،بلکہ وہ فرضی ہے تویہ سب تعریف وتوصیف کالعدم ہو گئی،لہٰذا زید پر کوئی شرعی حکم نہیں)

 

یہاں مفتی سے تسامح واقع ہوا ہے۔زید نے جو کہا کہ ہم اسی یزدان کوجانتے ہیں جو ان خوبیوں کا مالک ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ یزدان ہماری نظر میں ان خوبیوں کا مالک ہے، اورہماری نظر میں یزدان ایسا ہی ہے۔اس کے اس کلام سے یزدان کے وجودیابیان کردہ صفات کی نفی نہیں ہوئی ہے، بلکہ جو صفات اس نے بیان کیے ہیں، بلیغ انداز میں ان صفات کی متضاد اورمنافی صفات کی نفی ہوئی ہے، اور زیدنے اپنی بیان کردہ صفات کومؤکد کیا ہے کہ یزدان ایسا ہی ہے، اور ہماری نظر میں اس کی یہ صفات ثابت ہیں۔

 

اردو زبان میں کسی مفہوم کو مؤکد کرنے کے لیے ایسا اندازبیان اختیار کیا جاتا ہے۔ زید نے بکر سے کہا کہ مسجد کے امام حافظ خالدصاحب ہر ہفتہ دوتین دن غیر حاضر رہتے ہیں۔ بکر نے کہا کہ مسجد کے امام حافظ خالدصاحب ہمیشہ نمازوں کے وقت مسجد میں حاضر رہتے ہیں اور ہم اسی امام مسجدحافظ خالدصاحب کو جانتے ہیں جو ہمیشہ نمازوں کے وقت حاضر رہتے ہیں۔اس کا یہی مفہوم ہوا کہ زید نے جو کچھ حافظ خالدصاحب کے بارے میں کہا، وہ غلط ہے۔حافظ خالد صاحب ہمیشہ مسجد میں حاضررہتے ہیں۔بکر کے قول (ہم اسی امام مسجدحافظ خالدصاحب کو جانتے ہیں جوہمیشہ نمازوں میں حاضر رہتے ہیں)کا یہ مفہوم نہیں کہ جوحافظ خالدصاحب ہمیشہ حاضر نہیں رہتے ہیں،اس کو بکر جانتا نہیں،بلکہ حافظ خالدصاحب پر لگائے گئے الزام کووہ غلط بتا رہا ہے۔ دراصل بلیغ انداز میں غلط الزام کی تردید مقصودہے۔

 

(2) کوئی دیوبندی کہے:”اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے،بلکہ جھوٹ بولتا ہے۔اگر جھوٹ نہ بول سکے تو اس کی قدرت میں کمی لازم آئے گی۔میں اسی خدا کو جانتا ہوں جو جھوٹ بول سکتا ہو،اور جھوٹ بولتا ہو“۔(معاذ اللہ تعالیٰ)

 

اب کوئی سنی اس دیوبندی کو کہے کہ تم اس قول سے کافرہوگئے،کیوں کہ تم نے اللہ تعالیٰ کو جھوٹا کہاہے۔(معاذ اللہ تعالیٰ)یہ اللہ تعالیٰ کی توہین ہے اور اللہ تعالیٰ کی توہین کرنے والا کافر ہے،لہٰذا تم کافر ہو۔

 

دیوبندی جواب دے کہ جب حقیقت میں اللہ تعالیٰ ایسا ہے ہی نہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی توہین ہی نہیں ہوئی، لہٰذامیں کافر نہیں۔

 

پھر وہ دیوبندی مذکورہ بالافتویٰ پیش کرے اور کہے کہ جب خداواقعتا ایسا ہے، تواس کی توہین ہوئی-اور خدا ایسا نہیں ہے تو اس کی توہین نہیں ہوئی۔

 

جب اللہ تعالیٰ ایسا ہے ہی نہیں تو اللہ تعالیٰ کی توہین ہی نہیں ہوئی، جب اللہ تعالیٰ کی توہین نہیں ہوئی تومیں کافر نہیں ہوا۔ اب اس دیوبندی کوکیا جواب دیا جائے؟

 

اگر یہ جواب دیا جائے کہ اللہ تعالی موجود حقیقی ہے۔لہذا اللہ تعالی کی صفات صحیحہ کے برخلاف جو کچھ کہا جائے,وہ غلط ہو گا۔اور اہرمن کا وجود ہی ثابت نہیں,کیوں کہ دو معبود محال عقلی ہے۔لہذا جب ذات ہی ثابت نہیں تو صفات کا انطباق اس پر نہیں ہو گا۔یہ تعریف وتوصیف اہرمن کی تعریف قرار نہیں پائے گی۔

 

اس جواب پر یہ اعتراض ہو گا کہ اس طور پر فرضی معبودان باطل کی تعریف وتوصیف پر کوئی حکم شرعی وارد نہیں ہونا چاہئے,جب کہ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے جن معبودان باطل کے وجود کو فرضی اور خیالی بتایا ہے۔ان کی جے پکارنے کو کفر قرار دیا ہے۔جب فرضی وخیالی معبودان باطل کی تعظیم کفر ہے تو فرضی وخیالی معبودان باطل کی تعریف وتوصیف پر بھی حکم شرعی وارد ہو گا۔

 

دراصل فقہی جزئیہ سے کلامی مسئلہ حل کرنے سے یہ معاملہ درپیش ہوا۔ فقہ وکلام دو جداگانہ علوم ہیں۔ دونوں کے اصول وضوابط جداگانہ ہیں۔بشر غیر معصوم سے تسامح کا صدور بعیدنہیں۔

 

ایسے مواقع پرتسامح کا سبب در یافت کرنا ضروری ہے،تاکہ مسئلہ کی تصحیح کی جا سکے۔بے التفاتی کے سبب کوئی عالم دین کچھ لکھ دے تووہ ان کا مذہب نہیں ہوتا۔ لغزش وخطا اور مذہب میں فرق ہے۔

 

بھارت میں علم کلام کے مشتغلین کی تعداد بہت کم ہے۔ پڑوسی ملک میں تعداد کچھ زیادہ ہے۔اہل علم سوال کرتے ہیں کہ علم کلام میں قوت پیداکرنے کے واسطے کیا کرنا چاہئے۔

 

دراصل جس طرح فقہیات میں بہت سے ابواب ہیں،اسی طرح علم کلام کے بھی بہت سے مباحث ہیں۔فقہائے کرام میں بعض فقہ العبادات کا غائرانہ مطالعہ کرتے ہیں۔بعض فقہ المعاملات میں مہارت رکھتے ہیں۔بعض کوعلم المیراث سے رغبت ودلچسپی ہے۔

 

علم کلام میں طویل مدت سے اسلاف کرام کا طریق مشہور یہ ہے کہ اپنے عہد کے بدمذہب فرقوں کے عقائد اور ان کے جوابات کی تلاش وتتبع اور جمع وتدوین میں مشغول رہے ہیں۔امام المتکلمین حضرت امام ابوالحسن اشعری وامام المتکلمین امام ابومنصور ماتریدی علیہما الرحمۃ والرضوان کی تصنیفات وتالیفات کو دیکھنے سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔

 

آج بھی علم کلام کے مشتغلین کو چاہئے کہ عہد حاضر کے بدمذہب فرقوں کے عقائد جانیں۔ علمائے اہل سنت وجماعت خصوصاً اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃالرضوان کی کتابوں میں ان کے جوابات تلاش کریں۔ بدمذہبوں کے ایرادات کے جوابات کی تلاش وتتبع کریں۔

 

اسی در میان بہت سے علمی مباحث کودیکھنے، سمجھنے اور مزید جانکاری کا شوق وذوق بھی میسر آئے گا،پھران شاء اللہ تعالیٰ سلسلہ ترقی پذیر ہوگا، اور مطلوب محمودحاصل ہوگا۔

 

طارق انور مصباحی

 

جاری کردہ:12:ستمبر 2021