پاکستانی پاسپورٹ کی ابتر حالت

داخلی انتشار، کمزور خارجہ پالیسی، بد عنوانی کے ساتھ عالمی سازشی گروہوں کی کوشش سے پاکستانی پاسپورٹ کی حالت بد ترین ہو چکی ہے۔ ہمارا پاسپورٹ اس وقت صومالیہ، شام، یمن، افغانستان اور عراق کی صف میں کھڑا ہے۔ میرے جیسے frequent traveler کے لیے یہ ایک مسلسل اذیت، پریشانی، بے عزتی اور ہتک کا معاملہ ہے کہ اب ہمیں افریقہ کے غریب و پسماندہ ترین ممالک بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ حال ہی میں ایک پاکستانی دوست جن کے پاس جاپان کی اقامت یعنی سرمایہ کاری کا ویزہ بھی موجود ہے، ان کے لیے تنزانیہ کا ویزہ اپلائی کرنا پڑا۔ دو بار ویزہ درخواست رد کر دی گئی۔ تنزانیہ میں پاکستانی پاسپورٹ پر ویزہ درکار نہیں ہوتا تھا۔ ائیر پورٹ پر ہی ویزہ دیا جاتا تھا لیکن FATF والے معاملے کے بعد تنزانیہ نے نہ صرف پاکستان کے لیے visa on arrival ختم کر دیا بلکہ پاکستان کو بی کیٹیگری یعنی referral category میں ڈال دیا ہے۔ تنزانیہ کی وزارتِ خارجہ کے افسران، ایوان صدر کے سینئیر حکام سے میرے براہ راسط روابط ہی نہیں بلکہ قریبی تعلقات بھی ہیں، لیکن یہ تمام حکام “مجبور” ہیں۔

ترکی کے ساتھ ہمارے خونی تعلقات ہیں، ہم ایک جان دو قالب ہیں لیکن ترک سفارتخانے میں پاکستانی پاسورٹ کی انتہائی بے قدری ہے۔ ترکی پاکستانی ویزہ درخواست ریجیکٹ کر دیتا ہے کیونکہ انہیں یورپ والو ں کو خوش رکھنا ہے۔ مشرقِ بعید کے سفر پر جاتے ہوئے راستے مین چند گھنٹوں کے لیے کولمبو رک جانا تو عام سی بات تھی، اب ہمیں سری لنکا سے بھی ویزہ لینا ضروری ہے۔ ملائیشیا کے شہزادے جی سی لاہور اور پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، دہائیوں پرانے دینی تعلقات ہیں لیکن اب ہمیں ملائیشین ویزہ بھی آسانی سے نہیں ملتا۔ سنگاپور اور انڈونیشیا کے ساتھ ساتھ برونائی دار السلام میں بھی ہمارا پاسپورٹ نظر انداز کیا جانے لگا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں ہر روز ہزار ہا ہندوستانی پہنچ رہے ہیں، لیکن پاکستان کے لیے ویزے بند ہیں۔ سنٹرل ایشیاء کی تمام ریاستوں نے پاکستان کے لیے ویزہ پالیسی سخت کر دی ہے۔ چائنہ تو پاکستان کا شریک فی الکل ہے، لیکن چائنہ کا ویزہ لینا دیوارِ چین عبور کرنے سے بھی مشکل ترین کام ہو چکا ہے۔ کینیڈا، امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا کی بھارت کے لیے ویزہ پالیسی الگ ہے جب کہ پاکستان کی قدر عراق و صومالیہ اور افغان و شام سے بھی بد تر ہے۔

اس ساری صورتِ حال میں پاکستان سرمایہ کاری اور بزنس و صنعت سے وابستہ حضرات بیرون ملک کیسے جائیں گے؟ حکومت وقت کو بیرون ملک اپنی سفارتی جنگ مزید بہتر انداز میں لڑنے کی ضرورت ہے۔ جب تک پاکستانی پاسپورٹ کی قدر بحال نہیں ہو گی، ہم اپنے سرحدی، نظریاتی اور جغرافیائی دشمنوں سے نہیں جیت سکیں گے۔

افتخار الحسن رضوی

۱۷ ستمبر ۲۰۲۱