بیان سند میں تسامح

ضعیف لوگوں سے روایت کے علاوہ کبھی امام بخاری سے سند میں راویوں کے نام کے سلسلے میں بھی خطا واقع ہوجاتی ہے چنانچہ امام بخاری نے” اذا اقيمت الصلوة فلا صلوة الا المكتوبة‘‘ کے تحت ایک حدیث اس سند کے ساتھ وارد کی ہے: حدثنا عبد العزيز بن عبدالله قال حدثنا ابراهيم بن سعد عن أبيه عن حفص بن عاصم عن عبدالله بن مالك بن بحينة قال ” الخ۔

اس سند کے بیان میں امام بخاری سے دو غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بحینه عبدالله کی والدہ کا نام ہے نہ کہ مالک کی اور امام بخاری نے اس کو مالک کی والدہ قرار دیا ہے دوسری یہ کہ آگے چل کر فرماتے ہیں: “سمعت رجلا من الازد يقال له مالك بن بحینه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم رای رجلا” الحدیث، اس حدیث کو انہوں نے مالک سے روایت کیا ہے حالانکہ یہ حدیث مالک کے بیٹے عبد الله بن مالک سے مروی ہے مالک تو مشرف بہ اسلام بھی نہیں ہوئے تھے۔ مسلم نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اس سند کو بیان کیا ہے لیکن ان کی سند میں یہ غلطیاں نہیں ہیں ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

الوهم فيه موضعين أحدهما أن بحينة والدة عبد الله لا مالك و ثانيها أن الصحية والرواية لعبد الله المالك (فتح الباری ج 1 ص ۲۹ طبع مصر)

اس روایت میں دو جگہ وہم ہے اول یہ کہ بحينه عبداللہ کی والده ہے نہ کہ ملک کی، ثانی یہ کہ صحابی اور راوی عبداللہ ہیں نہ کہ مالک۔