کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 20 رکوع 7 سورہ القصص آیت نمبر 29 تا 42
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًاۚ-قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ(۲۹)
پھر جب موسیٰ نے اپنی میعاد پوری کردی (ف۷۷) اور اپنی بی بی کو لے کر چلا (ف۷۸) طور کی طرف سے ایک آ گ دیکھی (ف۷۹) اپنی گھر والی سے کہا تم ٹھہرو مجھے طور کی طرف سے ایک آ گ نظر پڑی ہے شاید میں وہاں سے کچھ خبر لاؤ ں (ف۸۰) یا تمہارے لیے کوئی آ گ کی چنگاری لاؤں کہ تم تاپو
(ف77)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے بڑی میعاد یعنی دس سال پورے کئے پھر حضرت شعیب علیہ السلام سے مِصر کی طرف واپس جانے کی اجازت چاہی آپ نے اجازت دی ۔
(ف78)
ان کے والد کی اجازت سے مِصر کی طرف ۔
(ف79)
جب کہ آپ جنگل میں تھے اندھیری رات تھی ، سردی شدّت کی پڑ رہی تھی ، راستہ گم ہو گیا تھا اس وقت آپ نے آ گ دیکھ کر ۔
(ف80)
راہ کی کہ کس طرف ہے ۔
فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ یّٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰)
پھر جب آ گ کے پاس حاضر ہوا ندا کی گئی میدان کے دہنے کنارے سے (ف۸۱) برکت والے مقام میں پیڑ سے (ف۸۲) کہ اے موسیٰ بےشک میں ہی ہوں اللہ رب سارے جہان کا (ف۸۳)
(ف81)
جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے دستِ راست کی طرف تھا ۔
(ف82)
وہ درخت عناب کا تھا یا عوسج کا (عوسج ایک خاردار درخت ہے جو جنگلوں میں ہوتا ہے)
(ف83)
جب حضرت موسٰی علیہ السلام نے سرسبز درخت میں آ گ دیکھی تو جان لیا کہ اللہ تعالٰی کے سوا یہ کسی کی قدرت نہیں اور بے شک اس کلام کا اللہ تعالٰی ہی متکلم ہے ۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ کلام حضرت موسٰی علیہ السلام نے صرف گوش مبارک ہی سے نہیں بلکہ اپنے جسمِ اقدس کے ہر ہر جزو سے سُنا ۔
وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْؕ-یٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ-اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ(۳۱)
اور یہ کہ ڈال دے اپنا عصا (ف۸۴) پھر جب موسیٰ نے اُسے دیکھا لہراتا ہوا گویا سانپ ہے پیٹھ پھیر کر چلا اور مُڑ کر نہ دیکھا (ف۸۵) اے موسیٰ سامنے آ اور ڈر نہیں بےشک تجھے امان ہے (ف۸۶)
(ف84)
چنانچہ آپ نے عصا ڈال دیا وہ سانپ بن گیا ۔
(ف85)
تب ندا کی گئی ۔
(ف86)
کوئی خطرہ نہیں ۔
اُسْلُكْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ٘-وَّ اضْمُمْ اِلَیْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(۳۲)
اپنا ہاتھ (ف۸۷) گریبان میں ڈال نکلے گا سفید چمکتا بے عیب (ف۸۸) اور اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لے خوف دُور کرنے کو (ف۸۹) تو یہ دوحجتیں ہیں تیرے رب کی (ف۹۰) فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بےشک وہ بے حکم(نافرمان) لوگ ہیں
(ف87)
اپنی قمیص کے ۔
(ف88)
شعاعِ آفتاب کی طرح تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنا دستِ مبارک گریبان میں ڈال کر نکالا تو اس میں ایسی تیز چمک تھی جس سے نگاہیں جھپکیں ۔
(ف89)
تاکہ ہاتھ اپنی اصلی حالت پر آئے اور خوف رفع ہو جائے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو سینہ پر ہاتھ ر کھنے کا حکم دیا تاکہ جو خوف سانپ دیکھنے کے وقت پیدا ہو گیا تھا رفع ہو جائے اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد جو خوف زدہ اپنا ہاتھ سینہ پر رکھے گا اس کا خوف دفع ہو جائے گا ۔
(ف90)
یعنی عصا اور یدِ بیضا تمہاری رسالت کی برہانیں ہیں ۔
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ(۳۳)
عرض کی اے میرے رب میں نے اُن میں ایک جان مار ڈالی ہے (ف۹۱) تو ڈرتا ہوں کہ مجھے قتل کردیں
(ف91)
یعنی قبطی میرے ہاتھ سے مارا گیا ہے ۔
وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ٘-اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ(۳۴)
اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے تو اسے میری مدد کے لیے رسول بنا کہ میری تصدیق کرے مجھے ڈر ہے کہ وہ (ف۹۲) مجھے جھٹلائیں گے
(ف92)
یعنی فرعون اور اس کی قوم ۔
قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَاۚۛ-بِاٰیٰتِنَاۤۚۛ-اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ(۳۵)
فرمایا قریب ہے کہ ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی سے قوت دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ عطا فرمائیں گے تو وہ تم دونوں کا کچھ نقصان نہ کرسکیں گے ہماری نشانیوں کے سبب تم دونوں اور جو تمہاری پیروی کریں گے غالب آؤ گے (ف۹۳)
(ف93)
فرعون اور اس کی قوم پر ۔
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآىٕنَا الْاَوَّلِیْنَ(۳۶)
پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں لایا بولے یہ تو نہیں مگر بناوٹ کا جادو(ف۹۴) اور ہم نے اپنے اگلے باپ داداؤں میں ایسا نہ سنا (ف۹۵)
(ف94)
ان بدنصیبوں نے معجزات کا انکار کر دیا اور ان کو جادو بتا دیا مطلب یہ تھا کہ جس طرح تمام انواعِ سحر باطل ہوتے ہیں اسی طرح معاذ اللہ یہ بھی ہے ۔
(ف95)
یعنی آپ سے پہلے ایسا کبھی نہیں کیا گیا یا یہ معنی ہیں کہ جو دعوت آپ ہمیں دیتے ہیں وہ ایسی نئی ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد میں بھی ایسی نہیں سنی گئی تھی ۔
وَ قَالَ مُوْسٰى رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى مِنْ عِنْدِهٖ وَ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(۳۷)
اور موسیٰ نے فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لایا (ف۹۶) اور جس کے لیے آخرت کا گھر ہوگا (ف۹۷) بےشک ظالم مراد کو نہیں پہنچتے (ف۹۸)
(ف96)
یعنی جو حق پر ہے اور جس کو اللہ تعالٰی نے نبوّت کے ساتھ سرفراز فرمایا ۔
(ف97)
اور وہ وہاں کی نعمتوں اور رحمتوں کے ساتھ نوازا جائے گا ۔
(ف98)
یعنی کافِروں کو آخرت کی فلاح میسّر نہیں ۔
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْۚ-فَاَوْقِدْ لِیْ یٰهَامٰنُ عَلَى الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰىۙ-وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۳۸)
اور فرعون بولا اے درباریو! میں تمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں جانتا تو اے ہامان میرے لیے گارا پکا کر (ف۹۹) ایک محل بنا (ف۱۰۰) کہ شاید میں موسیٰ کے خدا کو جھانک آؤں (ف۱۰۱) اور بےشک میرے گمان میں تو وہ (ف۱۰۲) جھوٹا ہے (ف۱۰۳)
(ف99)
اینٹ تیار کر ۔کہتے ہیں کہ یہی دنیا میں سب سے پہلے اینٹ بنانے والا ہے یہ صنعت اس سے پہلے نہ تھی ۔
(ف100)
نہایت بلند ۔
(ف101)
چنانچہ ہامان نے ہزارہا کاریگر اور مزدور جمع کئے اینٹیں بنوائیں اور عمارتی سامان جمع کر کے اتنی بلند عمارت بنوائی کہ دنیا میں اس کے بر ابر کوئی عمارت بلند نہ تھی فرعون نے یہ گمان کیا کہ (معاذاللہ) اللہ تعالٰی کے لئے بھی مکان ہے اور وہ جسم ہے کہ اس تک پہنچنا اس کے لئے ممکن ہو گا ۔
(ف102)
یعنی موسٰی علیہ السلام ۔
(ف103)
اپنے اس دعوٰی میں کہ اس کا ایک معبود ہے جس نے اس کو اپنا رسول بنا کر ہماری طرف بھیجا ہے ۔
وَ اسْتَكْبَرَ هُوَ وَ جُنُوْدُهٗ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ اِلَیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ(۳۹)
اور اس نے اور اس کے لشکریوں نے زمین میں بے جا بڑائی چاہی (ف۱۰۴) اور سمجھے کہ اُنہیں ہماری طرف پھرنا نہیں
(ف104)
اور حق کو نہ مانا اور باطل پر رہے ۔
فَاَخَذْنٰهُ وَ جُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِی الْیَمِّۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰)
تو ہم نے اُسے اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا (ف۱۰۵) تو دیکھو کیسا انجام ہوا ستم گاروں کا
(ف105)
اور سب غرق ہو گئے ۔
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ(۴۱)
اور انہیں ہم نے (ف۱۰۶) دوزخیوں کا پیشوا بنایا کہ آ گ کی طرف بلاتے ہیں (ف۱۰۷) اور قیامت کے دن اُن کی مدد نہ ہوگی
(ف106)
دنیا میں ۔
(ف107)
یعنی کُفر و معاصی کی دعوت دیتے ہیں جس سے عذابِ جہنّم کے مستحق ہوں اور جو ان کی اطاعت کرے جہنّمی ہو جائے ۔
وَ اَتْبَعْنٰهُمْ فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةًۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ هُمْ مِّنَ الْمَقْبُوْحِیْنَ۠(۴۲)
اور اس دنیا میں ہم نے ان کے پیچھے لعنت لگائی (ف۱۰۸) اور قیامت کے دن ان کا برا ہے
(ف108)
یعنی رسوائی اور رحمت سے دوری ۔