نبی کریمﷺ کی طرف منسوب ایک روایت کی تحقیق:

تحریر: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 

کچھ روافض ایک روایت بیان کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جسکا متن اور سند درجہ ذیل ہے :

 

حدثنا أبو العباس محمد بن أحمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي بن عفان العامري، ثنا عبد الله بن عمير، ثنا عامر بن السمط، عن أبي الجحاف داود بن أبي عوف، عن معاوية بن ثعلبة، عن أبي ذر رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: يا علي، من فارقني فقد فارق الله، ومن فارقك يا علي، فقد فارقني صحيح الإسناد، ولم يخرجاه “

 

حضرت ابو ذرغفاری نبی اکرمﷺ سے بیان کرتے ہیں :

نبی اکرمﷺ نے فرمایا کے اے علی جو مجھ سے جدا ہوا وہ اللہ سے لا تعلق ہوگیا اور جو تجھ سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوگیا

 

امام حاکم کہتے ہیں یہ روایت صحیح الاسناد ہے اور شیخین نے اسکی تخرین نہیں کی ہے

[مستدرک الحاکم برقم: 4624]

 

جبکہ یہ روایت منکر و باطل ہے

 

اس روایت کی تعلیق میں امام ذھبی فرماتے ہیں ”بل منكر” یعنی یہ روایت منکر ہے

[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4624 – بل منكر

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس روایت کی سند کی تحقیق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس روایت کا ایک راوی جسکا نام ” عن أبي الجحاف داود بن أبي عوف” جو کہ شیعہ ہے عمومی طورپر تو صدوق ہے لیکن یہ اکثر فضائل اہلبیت میں روایت بیان کرتا ہے اور مناکیر بیان کرتا تھا

 

جیسا کہ امام ابن عدی اسکی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

وهو في جملة متشيعي أهل الكوفة وعامة ما يرويه في فضائل أهل البيت.

یہ کوفہ کے شیعہ لوگوں میں سے تھا اور عمومی طور پر یہ فضائل اہل بیت میں روایات بیان کرتا تھا

 

اور پھر اسکی مناکیر میں سب سے پہلی مذکورہ روایت کو بیان کیا ہے

 

أبي الجحاف عن داود بن أبي عوف عن معاوية بن ثعلبة، عن أبي ذر، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم يا علي من فارقني فارق الله، ومن فارقك يا علي فارقني.

 

اسکے بعد امام ابن عدی کہتے ہیں :

 

لأبي الجحاف أحاديث غير ما ذكرته، وهو من غالية أهل التشيع وعامة حديثه في أهل البيت ولم أر لمن تكلم في الرجال فيه كلاما، وهو عندي ليس بالقوي، ولا ممن يحتج به في الحديث

 

یہ ابی جحاف اسکی روایات جو (اوپر بیان کردہ روایات ) کے علاوہ ہیں یہ غالی شیعوں میں سے ایک تھا اور عمومی طور پر اسکی روایات فضائل اہل بیت کے باب پر مشتمل ہوتی ہیں اور میں نے کسی ناقد کو نہیں دیکھا جو اس کے بارے کلام کرتا ہو

 

اور میرے نزدیک یہ راوی قوی نہیں اور یہ اس لائق نہیں کہ اسکی روایات سے احتجاج کیا جا سکے (فضائل اہل بیت کے باب میں )

[الكامل في ضعفاء الرجال برقم: 625]

 

یعنی امام ابن عدی نے اس پر جرح خاص کی ہے کہ اسکی مناکیر ہوتی ہیں فضائل اہل بیت کے باب میں اور اس میں اس راوی سے احتجاج نہیں کیا جائے گا مذکورہ باب میں

 

یہی وجہ ہے کہ امام ذھبی نے بھی مذکورہ روایت کو منکر قرار دیا تھا تخلیص میں نیز میزان اعتدال میں مذکورہ روایت کو منکر قرار دیتے ہوئے اسکا التزام اس راوی پر کیا ہے

 

نوٹ:

 

علامہ ہیثمی نے اس روایت کے تمام رجال کو ثقہ کہا ہے جو کہ درست نہیں جیسا کہ لکھتےہیں:

وعن أبي ذر قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – لعلي: ” «يا علي، من فارقني فارق الله، ومن فارقك يا علي فارقني» “.

رواه البزار، ورجاله ثقات.

[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد برقم: 14771]

 

لیکن امام بزار نے اس روایت میں ابو حجاف کا تفرد قرار دیتے ہوئے کہا ہے :

 

دثنا علي بن المنذر، وإبراهيم بن زياد، قالا: نا عبد الله بن نمير، عن عامر بن السبط، عن أبي الجحاف داود بن أبي عوف، عن معاوية بن ثعلبة، عن أبي ذر، رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي: «يا علي، من فارقني فارقه الله، ومن فارقك يا علي فارقني»

 

امام بزار کہتے ہیں اس کلام کو جو ہم نے روایت کیا ہے اسکو سوائے اس طریق کے ابی زر سے ہم نہیں جانتے

وهذا الكلام لا نعلمه يروى إلا عن أبي ذر بهذا الإسناد

[ مسند البزار برقم: 4066]

 

لیکن یہ راوی فضائل اہلبیت کی روایات میں ضعیف ہے جیسا کہ امام ابن عدی نے کہا ہے یہی وجہ ہے کہ امام القيسراني (المتوفى: 507هـ)

اس روایت کے تحت لکھتے ہیں:

 

حديث: يا علي} من فارقني؛ فارق الله عزوجل، ومن فارقك، يا علي {فارقني. رواه أبو الجحاف داود بن أبي عوف الكوفي: عن معاوية بن ثعلبة، عن أبي ذر.

 

اسکو نقل کرنے کے بعد امام قیسرانی فرماتے ہیں اور ابو جحاف یہ ضعیف ہے

وأبو الجحاف هذا ضعيف.

[ذخيرة الحفاظ برقم: 6448]

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس روایت کی سند میں دوسری علت یہ ہے کہ سند کا ایک راوی بنام ” معاوية بن ثعلبة الحمّانيّ” یہ مجہول ہے جسکی کوئی توثیق معتبر ثابت نہیں سوائے امام ابن حبان کے اسکو ثقات میں شامل کرنے کے

 

نیز امام ابو حاتم نے بھی اسکو بغیر جرح و تعدیل کے بیان کیاہے

 

امام ابن حجر عسقلانی الاصابہ میں فرماتے ہیں :

 

تابعيّ أرسل حديثا، فذكره الإسماعيليّ في الصحابة، وقال: لا أدري له صحبة أو لا.

یہ تابعی ہے اور ارسال کرتا تھا اور علامہ اسمائیل نے صحابہ (کتاب) میں اسکے بارکہا کہ میں نہیں جانتا کہ اس نے صحبت رسولﷺ پائی ہے یا نہیں

اور پھر اسکی مذکورہ روایت کو بیان کرتے ہیں جسکی تفصیل اوپر پڑھ چکے ہیں

[الإصابة في تمييز الصحابة برقم: 8604]

 

خلاصہ تحقیق:

 

اس روایت کو بیان کرنے والا راوی ابی جحاف غالی شیعہ ہے اور اس روایت میں اسکا تفرد ہے

امام ابن عدی کے نزدیک یہ فضائل اہل بیت کی روایت میں بیان ضعیف اور لا یحتاج بہ ہے

اور اس روایت کا مزکری راوی مجہول ہے جسکی کوئی معتبر توثیق ثابت نہیں ہے

اور متن کے اعتبار سے یہ منکر ہے

 

تحقیق: دعاگو اس الطحاوی الحنفی البریلوی