مصنف کے نزدیک ” فتح الباری اور عمدة القاری کا موازنہ

حاجی خلیفہ نے جو یہ کہا ہے کہ عمدة القاری‘‘ کو فتح الباری“ کی طرح شہرت اور پذیرائی حاصل نہیں ہوئی تو یہ ان کا اپنا خیال ہے درحقیقت” عمدة القاری کو فتح الباری سے زیادہ شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں فته حنفی کے پیروکار فقه شافعی کے پیروکاروں سے بہت زیادہ ہیں اور چونکه عمدة القاری میں فقہ حنفی کی وکالت کی گئی ہے اس لیے عمدة القاری کے طالبین فتح الباری‘‘ سے بہت زیادہ ہیں۔

حافظ بدرالدین کی نظر اور ان کا مطالعہ حدیث حافظ ابن حجر سے بہت زیادہ ہے صحیح بخاری کی احادیث کی شرح میں حافظ عینی نے جس قدر کثرت سے احادیث کو وارد کیا ہے حافظ ابن حجر کی فتح الباری میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ امام بخاری نے جوتعلیقات ذکر کی ہیں حافظ عینی ان میں سے ہر تعلیق کا ماخذ بتاتے ہیں جب کہ حافظ ابن حجر شاذ ونادر کسی تعلیق کا ماخذ ذکر کرتے ہیں۔

“صحیح بخاری ” میں جو قرآن مجید کی آیات آتی ہیں حافظ عینی معتبر تفاسیر سے ان آیات کی تفسیر ذکر کرتے ہیں جب کہ حافظ ابن حجر کی شرح میں یہ چیز نہیں ہے اور حافظ عینی کی تفسیر میں اکثر احادیث کا ذکر ہوتا ہے۔

صحیح بخاری کی جس حدیث کی علامہ عینی شرح کرتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ یہ حدیث” صحیح بخاری “میں اور کن کن مقامات پر ہے اور دیگر کن کن کتب حدیث میں اس حدیث کا ذکر ہے اور فتح الباری اس تفصیل سے خالی ہے۔

حافظ عینی ہر باب کی دوسرے باب کے ساتھ مناسبت ذکر کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے امام بخاری کے تمام ابواب ایک سلک میں منسلک ہیں اور فتح الباری اس خوبی سے خالی ہے۔

احادیث کی تراجم ابواب کے ساتھ مناسبت هر چند کہ بعض مقامات پر فتح الباری میں بھی مذکور ہوتی ہے لیکن انہوں نے ہر باب میں اس کا الترام نہیں کیا جب کہ” عمدة القاری میں ہر حدیث کی ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت بیان کی گئی ہے۔

فقہاء کے مذاہب بھی جس تفصیل سے عمدة القاری” میں مذکور ہوتے ہیں “” فتح الباری میں اس تفصیل سے مذکور نہیں ہوتے۔

حدیث سے مسائل کے استنباط میں بھی فتح الباری‘‘ کی عمدة القاری سے کوئی نسبت نہیں حافظ عینی ہر حدیث کی شرح میں استنباط مسائل کا عنوان قائم کرتے ہیں جب کہ فتح الباری میں ہر حدیث سے مسائل کا استنباط نہیں ہوتا اور جہاں ہوتا ہے وہاں علامہ عینی کی نسبت بہت کم مسائل کا استنباط ہوتا ہے۔

حاجی خلیفہ نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ علامہ عینی نے رکن الدین کی شرح نقل کی ہے اس کی حقیقت بھی افتراء اور اتہام سے زیادہ نہیں ہے علامہ عینی متقدمین شارحین میں سے جس کا بھی اقتباس نقل کرتے ہیں اس کا نام ذکر کرتے ہیں اورکسی شارح کی بات اس کے حوالے کے بغیر نہیں کرتے اس کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ علامہ ابن بطال مالکی متوفی 449ھ کی شرح ابھی ۱۴۲۰ھ میں ریاض سے چھپی ہے علامہ عینی غالبا اس کے قلمی نسخے سے اپنی شرح میں اقتباسات ذکر کرتے ہیں اور ہر جگہ ان کے نام کا حوالہ دیتے میں اگر علامہ عینی نے کہیں رکن الدین کا اقتباس لیا ہوتا تو وہ ان کے بھی نام کا حوالہ دیتے۔

حافظ ابن حجر کی شرح فتح الباری“ اگرچه علامه عینی کی شرح عمدة القاری کے پائے کی نہیں لیکن وہ بھی بہت عمدہ شرح ہے تاہم اپنی شرح میں وہ جس باب میں مزید شرح کرنے کا ذکر کرتے ہیں اس باب میں جاکر وہ بھول جاتے ہیں اور ان کی عبارات میں تعارض اور تضاد بھی بہت ہے جس کی چند مثالیں ہم ذکر کر رہے ہیں: