وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)

اور بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی (ف۱۰۹) بعد اس کے کہ اگلی سنگتیں(قومیں)(ف۱۱۰) ہلاک فرمادیں جس میں لوگوں کے دل کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت تاکہ وہ نصیحت مانیں

(ف109)

یعنی توریت ۔

(ف110)

مثل قومِ نوح و عاد و ثمود وغیرہ کے ۔

وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَ مَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَۙ(۴۴)

اور تم (ف۱۱۱) طور کی جانب مغرب میں نہ تھے (ف۱۱۲) جب کہ ہم نے موسیٰ کو رسالت کا حکم بھیجا (ف۱۱۳) اور اُس وقت تم حاضر نہ تھے

(ف111)

اے سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

(ف112)

وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کا میقات تھا ۔

(ف113)

اور ان سے کلام فرمایا اور انہیں مقرب کیا ۔

وَ لٰكِنَّاۤ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُۚ-وَ مَا كُنْتَ ثَاوِیًا فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَاۙ-وَ لٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ(۴۵)

مگر ہوا یہ کہ ہم نے سنگتیں پیدا کیں (ف۱۱۴) کہ ان پر زمانہ دراز گزرا (ف۱۱۵) اور نہ تم اہلِ مدین میں مقیم تھے ان پر ہماری آیتیں پڑھتے ہوئے ہاں ہم رسول بنانے والے ہوئے (ف۱۱۶)

(ف114)

یعنی بہت سی اُمّتیں بعد حضرت موسٰی علیہ السلام کے ۔

(ف115)

تو وہ اللہ کا عہد بھول گئے اور انہوں نے اس کی فرمانبرداری ترک کی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم سے سیدِ عالَم حبیبِ خدا محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں اور آپ پر ایمان لانے کے متعلق عہد لئے تھے جب دراز زمانہ گزرا اور اُمّتوں کے بعد اُمّتیں گزرتی چلی گئیں تو وہ لوگ ان عہدوں کو بھول گئے اور اس کی وفا ترک کر دی ۔

(ف116)

تو ہم نے آپ کو علم دیا اور پہلوں کے حالات پر مطّلع کیا ۔

وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَ لٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۶)

اور نہ تم طور کے کنارے تھے جب ہم نے ندا فرمائی (ف۱۱۷) ہاں تمہارے رب کی مہر ہے (کہ تمہیں غیب کے علم دئیے) (ف۱۱۸) کہ تم ایسی قوم کو ڈر سناؤ جس کے پاس تم سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہ آیا (ف۱۱۹) یہ اُمید کرتے ہوئے کہ ان کو نصیحت ہو

(ف117)

حضرت موسٰی علیہ السلام کو توریت عطا فرمانے کے بعد ۔

(ف118)

جن سے تم ان کے احوال بیان فرماتے ہو ۔ آپ کا ان امور کی خبر دینا آپ کی نبوّت کی ظاہر دلیل ہے ۔

(ف119)

اس قوم سے مراد اہلِ مکّہ ہیں جو زمانۂ فِترۃ میں تھے جو حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و حضرت عیسٰی علیہ السلام کے درمیان پانچ سو پچاس برس کی مدّت کا ہے ۔

وَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۴۷)

اور اگر نہ ہوتا کہ کبھی پہنچتی انہیں کوئی مصیبت (ف۱۲۰) اس کے سبب جو اُن کے ہاتھوں نے آگے بھیجا (ف۱۲۱) تو کہتے اے ہمارے رب تو نے کیوں نہ بھیجا ہماری طرف کوئی رسول کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان لاتے (ف۱۲۲)

(ف120)

عذاب و سزا ۔

(ف121)

یعنی جو کُفر و عصیان انہوں نے کیا ۔

(ف122)

معنٰی آیت کے یہ ہیں کہ رسولوں کا بھیجنا ہی الزامِ حُجّت کے لئے ہے کہ انہیں یہ عذر کرنے کی گنجائش نہ ملے کہ ہمارے پاس رسول نہیں بھیجے گئے اس لئے گمراہ ہو گئے اگر رسول آتے تو ہم ضرور مطیع ہوتے اور ایمان لاتے ۔

فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُوْتِیَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰىؕ-اَوَ لَمْ یَكْفُرُوْا بِمَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُۚ-قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظٰهَرَاٙ۫-وَ قَالُوْۤا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ(۴۸)

پھر جب ان کے پاس حق آیا(ف۱۲۳) ہماری طرف سے بولے (ف۱۲۴) انہیں کیوں نہ دیا گیا جیسا موسیٰ کو دیا گیا (ف۱۲۵) کیا اس کے منکر نہ ہوئے تھے جو پہلے موسیٰ کو دیا گیا (ف۱۲۶) بولے دو جادو ہیں ایک دوسرے کی پشتی(امداد) پر اور بولے ہم ان دونوں کے منکر ہیں (ف۱۲۷)

(ف123)

یعنی سیدِ عالَم محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

(ف124)

مکّہ کے کُفّار ۔

(ف125)

یعنی انہیں قرآنِ کریم یکبارگی کیوں نہیں دیا گیا جیسا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کو پوری توریت ایک ہی بار میں عطا کی گئی تھی یا یہ معنی ہیں کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عصا اور یدِ بیضا جیسے معجزات کیوں نہ دیئے گئے اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے ۔

(ف126)

یہود نے قریش کو پیغام بھیجا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت موسٰی علیہ السلام کے سے معجزات طلب کریں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جن یہود نے یہ سوال کیا ہے کیا وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے اور جو انہیں اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے اس کے منکر نہ ہوئے ۔

(ف127)

یعنی توریت کے بھی اور قرآن کے بھی ان دونوں کو انہوں نے جادو کہا اور ایک قراءت میں ساحران ہے اس تقدیر پر معنٰی یہ ہوں گے کہ دونوں جادو گر ہیں یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت موسٰی علیہ السلام ۔

شانِ نُزول : مشرکینِ مکّہ نے یہودِ مدینہ کے سرداروں کے پاس قاصد بھیج کر دریافت کیا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کتبِ سابقہ میں کوئی خبر ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں حضور کی نعت و صفت ان کی کتاب توریت میں موجود ہے جب یہ خبر قریش کو پہنچی تو حضرت موسٰی علیہ السلام و سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کہنے لگے کہ وہ دونوں جادو گر ہیں ان میں ایک دوسرے کا معین و مددگار ہے اس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا ۔

قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَاۤ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۴۹)

تم فرماؤ تو اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت کی ہو (ف۱۲۸) میں اس کی پیروی کروں گا اگر تم سچے ہو (ف۱۲۹)

(ف128)

یعنی توریت و قرآن سے ۔

(ف129)

اپنے اس قول میں کہ یہ دونوں جادو یا جادوگر ہیں اس میں تنبیہ ہے کہ وہ اس کے مثل کتاب لانے سے عاجزِ مَحض ہیں چنانچہ آگے ارشاد فرمایا جاتا ہے ۔

فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْؕ-وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۠(۵۰)

پھر اگر وہ یہ تمہارا فرمانا قبول نہ کریں (ف۱۳۰) تو جان لو کہ (ف۱۳۱) بس وہ اپنی خواہشو ں ہی کے پیچھے ہیں اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو اپنی خواہش کی پیروی کرے اللہ کی ہدایت سے جدا بےشک اللہ ہدایت نہیں فرماتا ظالم لوگوں کو

(ف130)

اور ایسی کتاب نہ لا سکیں ۔

(ف131)

ان کے پاس کوئی حُجّت نہیں ہے ۔