فیوض الباری

سیدمحمود احمد رضوی متوفی 1420ھ کی اس کتاب کی دس جلدیں چھپی ہیں جو صحیح بخاری کے گیارہ پاروں پر مشتمل ہیں۔ صحیح بخاری کی یہ شرح اردو شروح میں سب پر فائق ہے علامہ رضوی نے اس شرح میں صرف قدیم شروح کے فوائد اور نکات پر اقتصار نہیں کیا بلکہ اس شرح میں اپنا حاصل مطالع بھی پیش کیا ہے اس شرح میں انہوں نے جو اسلوب اختیار کیا ہے اس کے متعلق وہ خود لکھتے ہیں: اس شرح میں امور زیل کا خیال رکھا گیا ہے:

(1) حدیث کا لفظی ترجمہ(۲) الفاظ حدیث کی حسب ضرورت لغوی تحقیق (۳) حدیث کے مسائل و احکام کی تفصیل (۴)ائمہ اربعہ کا حدیث زیر بحث سے استدلال اور ان کے مابین اختلاف آراء کے دلائل کی وضاحت (۵) امام بخاری نے ہر حدیث کو پوری سند کے ساتھ لکھا ہے میں نے بوجہ اختصار ابتدائی سند کو حذف کر دیا ہے (6) امام بخاری ایک ہی حدیث کو متعددعنوانات کے ماتحت متعدد بار ذکر کرتے ہیں میں نے امام بخاری کا ہرعنوان قائم رکھا ہے البتہ حدیث مکررکو صرف ایک ہی جگہ ذکر کیا ہے (۷) جس عنوان میں حدیث مکرر آتی ہے وہاں میں نے اس کی مناسبت سے بلکہ بعض اوقات اس کے جملے بھی لکھ دیئے ہیں اوریہ بھی تصریح کردی ہے کہ یہاں حدیث کرر ہے اس کو ترک کیا گیا ہے (۸) ایک جگہ اگر کوئی حدیث مختصر مذکور ہے اور دوسری جگہ مفصل ہے تو مفصل حدیث کو دوبارہ جہاں وہ آئی ہے ضرور باقی رکھا ہے اسی طرح جس مکرر حدیث میں کوئی لفظ کا ایسا درج ہے جس سے نیا مسئلہ معلوم ہوتا ہے تو ایسی حدیث کو بھی جہاں وہ آئی ہے باقی رکھا ہے۔

علامہ رضوی نے ” فیوض الباری“ لکھنے کی کب ابتدا کی اس کا پتہ نہیں چلا لیکن جلد اول کے اختتام پر جو تاریخ درج ہے وہ یہ ہے:۸ جمادی الثانی ۱۳۷۸ھ /۳ نومبر ۱۹۵۸ء

فیوض الباری کی دسویں جلد کتاب الشروط پرختم ہے اور اس کی آخری حدیث کا نمبر : ۲۵۴۳ ہے اور اس کے اختتام پر جو تاریخ درج ہے وہ یہ ہے:۲۳ جمادی الثانی 1408ھ / ۱۱ فروری ۱۹۸۸ء ” فیوض الباری“ کی 11-12 جلد بھی چھپی ہے جلد ۱۲ کے چار پانچ صفحات ہیں اور اس کے آخر میں تاریخ درج نہیں ہے۔

گویا پورے تیس سال میں مرحوم نے “صحیح بخاری کے گیارہ پاروں کی شرح لکھی، لیکن اس شرح کی تصنیف کے دوران انہوں نے اور بہت کتابیں تصنیف کیں اور متعدد دینی اور سماجی خدمات میں مصروف رہے آخری جلد کی تصنیف کے دوران دمہ کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے تھے اور اسی تکلیف میں 3رجب 1420ھ / ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۹ء ، کو ان کی وفات ہوگئی، اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ (آمین) جس سال” فیوض الباری“ کی پہلی جلد آئی ہے اس سال( ۱۹۵۸ء) میں میں نے رحیم یارخاں میں حصول تعلیم کا آغاز کیا تھا اب اس بات کو ۵۰ سال ہوچکے ہیں’ آٹھ سال بعد میں نے فراغت حاصل کی اور تقریبا 42 سال میں اللہ تعالی نے مجھے دیگر متعدد تصانیف کے علاوہ دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں قیام کے بیس سال میں شرح صحیح مسلم کی 7 مجلدات اور تبیان القرآن کی بارہ (۱۲) مجلدات لکھنے کی سعادت عطا فرمائی ۔ و ذالك فضل الله يوتيه من يشاء