باب فی الریاح

ہواؤں کاباب ۱؎

الفصل الاول

پہلی فصل

۱؎ ریاح ریح کی جمع ہے جو روح سے بنا،بمعنی رحمت،رب تعالٰی فرماتا ہے:”لَاتَایۡـَٔسُوۡامِنۡ رَّوْحِ اللہِ”۔چونکہ ہوا خودبھی رحمت ہے اور ہزارہا رحمتوں کا ذریعہ اس لیے اسے ریح کہتے ہیں۔قرآن شریف میں اکثر قہر کی ہوا کو ریح اور رحمت کی ہوا کو ریاح کہا گیا ہے۔

حدیث نمبر 736

روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ پروا کے ذریعے میری مدد کی گئی اوربچھوا کے ذریعہ قوم عاد ہلاک کی گئی ۱؎(مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ صبا وہ ہوا ہے جومشرق سےمغرب کو چلے،یہ تیز ہوتی ہے اکثر بارش لاتی ہے۔اور دبورہوا وہ ہے جومغرب سے مشرق کو جائے،یہ گرم وخشک ہوتی ہے،زمین کو خشک کرتی ہے اور اکثر بادل کو پھاڑ دیتی ہے،بارش کو دورکرتی ہے۔غزوہ خندق میں جب سارے کفارعرب نے مدینہ پاک کوگھیر لیا تھا تو ایک رات پروا ہوا تیز چلی جس سے کفار کے خیمے اڑ گئے،دیگچیاں ٹوٹ گئیں،جانور بھاگ گئے،ان کے منہ مٹی ریت سے بھرگئے آخر کار سب کو بھاگنا پڑا۔اہل مدینہ کو امن ملی اورہود علیہ السلام کی قوم عادبچھوا سے ہلاک ہوئی،اس حدیث میں اسی جانب اشارہ ہے۔غرضکہ ہوا وپانی کفار کے لیے عذاب،مومن کے لیے رحمت ہوجاتے ہیں،دریا نیل کا پانی قبطیوں پر عذاب،سبطیوق پر رحمت تھا۔