وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ(۵۱)

اور بےشک ہم نے اُن کے لیے بات مسلسل اُتاری (ف۱۳۲) کہ وہ دھیان کریں

(ف132)

یعنی قرآنِ کریم ان کے پاس پیاپے اور مسلسل آیا وعد اور وعید اور قصص اور عبرتیں اور موعظتیں تاکہ سمجھیں اور ایمان لائیں ۔

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ یُؤْمِنُوْنَ(۵۲)

جن کو ہم نے اس سے پہلے (ف۱۳۳) کتاب دی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں

(ف133)

یعنی قرآن شریف سے یا سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ۔

شانِ نُزول : یہ آیت مؤمنینِ اہلِ کتاب حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب کے حق میں نازِل ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ یہ ان اہلِ انجیل کے حق میں نازِل ہوئی جو حبشہ سے آ کر سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے یہ چالیس حضرات تھے جو حضرت جعفر بن ابی طالب کے ساتھ آئے جب انہوں نے مسلمانوں کی حاجت اور تنگیٔ معاش دیکھی تو بارگاہِ رسالت میں عرض کیا کہ ہمارے پاس مال ہیں حضور اجازت دیں تو ہم واپس جا کر اپنے مال لے آئیں اور ان سے مسلمانوں کی خدمت کریں حضور نے اجازت دی اور وہ جا کر اپنے مال لے آئے اور ان سے مسلمانوں کی خدمت کی ۔ ان کے حق میں یہ آیات” مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ” تک نازِل ہوئیں ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ یہ آیتیں اسی۸۰ اہلِ کتاب کے حق میں نازِل ہوئیں جن میں چالیس نجران کے اور بتّیس حبشہ کے اور آٹھ شام کے تھے ۔

وَ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِیْنَ(۵۳)

اور جب ان پر یہ آیتیں پڑھی جاتی ہیں کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے بےشک یہی حق ہے ہمارے رب کے پا س سے ہم اس سے پہلے ہی گردن رکھ چکے تھے (ف۱۳۴)

(ف134)

یعنی نُزولِ قرآن سے قبل ہی ہم حبیبِ خدا محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے تھے کہ وہ نبیٔ برحق ہیں کیونکہ توریت و انجیل میں ان کا ذکر ہے ۔

اُولٰٓىٕكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۵۴)

ان کو ان کا اجر دوبالا دیا جائے گا (ف۱۳۵) بدلہ اُن کے صبر کا (ف۱۳۶) اور وہ بھلائی سے برائی کو ٹالتے ہیں (ف۱۳۷) اور ہمارے دئیے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں (ف۱۳۸)

(ف135)

کیونکہ وہ پہلی کتاب پر بھی ایمان لائے اور قرآ نِ پاک پر بھی ۔

(ف136)

کہ انہوں نے اپنے دین پر بھی صبر کیا اور مشرکین کی ایذا پر بھی ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین قِسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں دو اجر ملیں گے ایک اہلِ کتاب کا وہ شخص جو اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی دوسرا وہ غلام جس نے اللہ کا حق بھی ادا کیا اور مولا کا بھی تیسرا وہ جس کے پاس باندی تھی جس سے قربت کرتا تھا پھر اس کو اچھی طرح ادب سکھایا اچھی تعلیم دی اور آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا اس کے لئے بھی دو اجر ہیں ۔

(ف137)

طاعت سے معصیت کو اور حلم سے ایذاء کو ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ توحید کی شہادت یعنی اشہد ان لا الہ الا اللہ سے شرک کو ۔

(ف138)

طاعت میں یعنی صدقہ کرتے ہیں ۔

وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ٘-سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ٘-لَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ(۵۵)

اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں اُس سے تغافل کرتے ہیں (ف۱۳۹) اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے عمل اور تمہارے لیے تمہارے عمل بس تم پر سلام (ف۱۴۰) ہم جاہلوں کے غرضی(چاہنے والے) نہیں (ف۱۴۱)

(ف139)

مشرکین مکّہ مکرّمہ کے ایمانداروں کو ان کا دین ترک کرنے اور اسلام قبول کرنے پر گالیاں دیتے اور بُرا کہتے یہ حضرات ان کی بےہودہ باتیں سُن کر اعراض فرماتے ۔

(ف140)

یعنی ہم تمہاری بےہودہ باتوں اور گالیوں کے جواب میں گالیاں نہ دیں گے ۔

اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(۵۶)

بےشک یہ نہیں کہ تم جسے اپنی طرف سے چاہو ہدایت کردو ہاں اللہ ہدایت فرماتا ہے جسے چاہے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت والوں کو (ف۱۴۲)

(ف141)

ان کے ساتھ میل جول نشست و برخاست نہیں چاہتے ہمیں جاہلانہ حرکات گوارا نہیں ” نُسِخَ ذٰلِکَ بِالْقِتَالِ”

(ف142)

جن کے لئے اس نے ہدایت مقدر فرمائی جو دلائل سے پند پذیر ہونے اور حق بات ماننے والے ہیں ۔

شانِ نُزول : مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت ابوطالب کے حق میں نازِل ہوئی نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ان کی موت کے وقت فرمایا اے چچا کہو ” لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ ” میں تمہارے لئے روزِ قیامت شاہد ہوں گا انہوں نے کہا کہ اگر مجھے قریش کے عار دینے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ضرور ایمان لا کر تمہاری آنکھ ٹھنڈی کرتا اس کے بعد انہوں نے یہ شعر پڑھے ” وَلَقَدْ عَلِمْتُ بِاَنَّ دِیْنَ مُحَمَّدٍ مِنْ خَیْرِ اَدْیَانِ الْبَرِیَّۃِ دِیْناً لَوْ لَا الْمَلَامَۃُ اَوْ حِذَارُمُسَبَّۃٍ لَوَجَدْ تَّنِیْ سَمُحًا بِذَاکَ مُبِیْنًا ” یعنی میں یقین سے جانتا ہوں کہ محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین تمام جہانوں کے دینوں سے بہتر ہے اگر ملامت و بدگوئی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں نہایت صفائی کے ساتھ اس دین کو قبول کرتا اس کے بعد ابوطالب کا انتقال ہوگیا ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی ۔

وَ قَالُوْۤا اِنْ نَّتَّبِـعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَاؕ-اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰۤى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۵۷)

اور کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو لوگ ہمارے مُلک سے ہمیں اُچک لے جائیں گے (ف۱۴۳) کیا ہم نے اُنہیں جگہ نہ دی امان والی حرم میں (ف۱۴۴) جس کی طرف ہر چیز کے پھل لائے جاتے ہیں ہمارے پاس کی روزی لیکن ان میں اکثر کو علم نہیں (ف۱۴۵)

(ف143)

یعنی سرزمینِ عرب سے ایک دم نکال دیں گے ۔

شانِ نُزول : یہ آیت حارث بن عثمان بن نوفل بن عبد مناف کے حق میں نازِل ہوئی اس نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا تھا کہ یہ تو ہم یقین سے جانتے ہیں کہ جو آپ فرماتے ہیں وہ حق ہے لیکن اگر ہم آپ کے دین کا اِتّباع کریں تو ہمیں ڈر ہے کہ عرب کے لوگ ہمیں شہر بدر کر دیں گے اور ہمارے وطن میں نہ رہنے دیں گے ۔ اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا ۔

(ف144)

جہاں کے رہنے والے قتل و غارت سے امن میں ہیں اور جہاں جانوروں اور سبزوں تک کو امن ہے ۔

(ف145)

اور وہ اپنی جہالت سے نہیں جانتے کہ یہ روزی اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اگر یہ سمجھ ہوتی تو جانتے کہ خوف و امن بھی اسی کی طرف سے ہے اور ایمان لانے میں شہر بدر کئے جانے کا خوف نہ کرتے ۔

وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَاۚ-فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًاؕ-وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ(۵۸)

اور کتنے شہر ہم نے ہلاک کردئیے جو اپنے عیش پر اِترا گئے تھے (ف۱۴۶) تو یہ ہیں اُن کے مکان (ف۱۴۷) کہ ان کے بعد ان میں سکونت نہ ہوئی مگر کم (ف۱۴۸) اور ہمیں وارث ہیں (ف۱۴۹)

(ف146)

اور انہوں نے طغیان اختیار کیا تھا کہ اللہ تعالٰی کی دی ہوئی روزی کھاتے اور پوجتے بُتوں کو اہلِ مکّہ کو ایسی قوم کے خراب انجام سے خوف دلایا جاتا ہے جن کا حال ان کی طرح تھا کہ اللہ تعالٰی کی نعمتیں پاتے اور شکر نہ کرتے ان نعمتوں پر اِتراتے وہ ہلاک کر دیئے گئے ۔

(ف147)

جن کے آثار باقی ہیں اور عرب کے لوگ اپنے سفروں میں انہیں دیکھتے ہیں ۔

(ف148)

کہ کوئی مسافر یا رہرو ان میں تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جاتا ہے پھر خالی پڑے رہتے ہیں ۔

(ف149)

ان مکانوں کے یعنی وہاں کے رہنے والے ایسے ہلاک ہوئے کہ ان کے بعد ان کا کوئی جانشین باقی نہ رہا اب اللہ کے سوا ان مکانوں کا کوئی وارث نہیں خَلق کی فنا کے بعد وہی سب کا وارث ہے ۔

وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْۤ اُمِّهَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَاۚ-وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِی الْقُرٰۤى اِلَّا وَ اَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ(۵۹)

اور تمہارا رب شہروں کو ہلاک نہیں کرتا جب تک ان کے اصل مرجع میں رسول نہ بھیجے (ف۱۵۰) جو اُن پر ہماری آیتیں پڑھے (ف۱۵۱) اور ہم شہروں کو ہلاک نہیں کرتے مگر جب کہ ان کے ساکن ستم گار ہوں (ف۱۵۲)

(ف150)

یعنی مرکزی مقام میں ۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ اُم القرٰی سے مراد مکّہ مکرّمہ ہے اور رسول سے مراد خاتَمِ انبیاء محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

(ف151)

اور انہیں تبلیغ کرے اور خبر دے کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں گے تو ان پر عذاب کیا جائے گا تاکہ ان پر حُجّت لازم ہو اور ان کے لئے عذر کی گنجائش باقی نہ رہے ۔

(ف152)

رسول کی تکذیب کرتے ہوں اپنے کُفر پر مُصِر ہوں اور اس سبب سے عذاب کے مستحق ہوں ۔

وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَاۚ-وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠(۶۰)

اور جو کچھ چیز تمہیں دی گئی ہے وہ دنیوی زندگی کا برتاوا اور اس کا سنگارہے (ف۱۵۳) اور جو اللہ کے پاس ہے (ف۱۵۴)وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والا(ف۱۵۵) تو کیا تمہیں عقل نہیں (ف۱۵۶)

(ف153)

جس کی بقا بہت تھوڑی اور جس کا انجام فنا ۔

(ف154)

یعنی آخرت کے منافع ۔

(ف155)

تمام کدورتوں سے خالی اور دائم غیر منقطع ۔

(ف156)

کہ اتنا سمجھ سکو کہ باقی فانی سے بہتر ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ جو شخص آخرت کو دنیا پر ترجیح نہ دے وہ نادان ہے ۔