حدیث نمبر 738

روایت ہے انہی سے فرماتی ہیں کہ جب تیز ہوا چلتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرتے الٰہی میں تجھ سے ہوا کی خیر اور جو اس ہوا میں ہے اس کی خیر اور جو چیز ہوا لےکربھیجی گئی اس کی خیر مانگتا ہوں ۱؎ اور ہوا کے شر اور جو اس میں ہے اس کے شر سے اور جو لےکر ہوا بھیجی گئی اس کے شرسے تیری پناہ مانگتا ہوں اور جب آسمان ابر آلود ہوتا آپ کا رنگ بدل جاتا باہر جاتے اندر آتے سامنے آتے پیچھے جاتے جب مینہ برستا تویہ کیفیت دور ہوتی حضرت عائشہ نے پہچان لیا تو اس کے بارے میں حضور سے پوچھا فرمایا اے عائشہ شاید یہ ایسا ہی ہو جیسا قوم عاد نے کہا تھا کہ جب جنگلوں کی طرف بادل آتے دیکھا تو بولے یہ ہم پر برسنے والا بادل ہے۲؎ اور ایک روایت میں ہے جب بارش دیکھتے تو فرماتے خدایا رحمت ہو۔(مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے آندھی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے۔اب بھی پڑھنی چاہیئے،یعنی اے مولیٰ! میں اس ہوا کی عمومی بھلائی بھی مانگتا ہوں اورخصوصی بھلائی بھی اور اس کے عمومی اورخصوصی شر سے تیری پناہ مانگتاہوں۔

۲؎ یعنی اے عائشہ! رب پر امن نہ چاہیے،ہمیشہ اس سے ڈرتے رہنا چاہیے،بادل کبھی عذاب بھی لاتا ہے،قوم عاد پر عذاب بادل ہی کی شکل میں آیا تھا۔خیال رہے کہ اﷲ کی ہیبت قوتِ ایمانی کی دلیل ہے اور اﷲ کے وعدوں پر بے اطمینانی کفار کا طریقہ ہے اور سخت کفر ہے،یوں ہی خدا سے امید ایمان کارکن ہے،خدا پرامن کفر ہے،یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی قسم کا خوف ہوتا تھا یعنی ہیبت خدائے تعالی۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگرچہ رب تعالٰی نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرمالیا تھا کہ تمہارے ہوتے کافروں پربھی عذاب نہ آئے گامگرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اس وعدے پر اطمینان نہ تھا اس لیے ڈرتے تھے کہ کہیں رب نے وعدہ خلافی کی ہو اور عذاب بھیج دیا ہوجیسا کہ بعض احمقوں نے یہ سمجھا۔