اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ(۶۱)

تو کیا وہ جسے ہم نے اچھا وعدہ دیا (ف۱۵۷) تو وہ اس سے ملے گا اس جیسا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کا برتاؤ برتنے دیا پھر وہ قیامت کے دن گرفتار کرکے حاضر لایا جائے گا (ف۱۵۸)

(ف157)

ثواب جنّت کا ۔

(ف158)

یہ دونوں ہرگز برابر نہیں ہو سکتے ان میں پہلا جسے اچھا وعدہ دیا گیا مؤمن ہے اور دوسرا کافِر ۔

وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ(۶۲)

اور جس دن انہیں ندا کرے گا (ف۱۵۹) تو فرمائے گا کہاں ہیں میرے وہ شریک جنہیں تم (ف۱۶۰) گمان کرتے تھے

(ف159)

اللہ تعالٰی بطریقِ توبیخ ۔

(ف160)

دنیا میں میرا شریک ۔

قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَغْوَیْنَاۚ-اَغْوَیْنٰهُمْ كَمَا غَوَیْنَاۚ-تَبَرَّاْنَاۤ اِلَیْكَ٘-مَا كَانُوْۤا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ(۶۳)

کہیں گے وہ جن پر بات ثابت ہوچکی (ف۱۶۱) اے ہمارے رب یہ ہیں وہ جنہیں ہم نے گمراہ کیا ہم نے انہیں گمراہ کیا جیسے خود گمراہ ہوئے تھے (ف۱۶۲) ہم اُن سے بیزار ہوکر تیری طرف رجوع لاتے ہیں وہ ہم کو نہ پوجتے تھے (ف۱۶۳)

(ف161)

یعنی عذاب واجب ہو چکا اور وہ لوگ اہلِ ضلالت کے سردار اور ائمۂ کُفر ہیں ۔

(ف162)

یعنی وہ لوگ ہمارے بہکانے سے با اختیار خود گمراہ ہوئے ہماری ان کی گمراہی میں کوئی فرق نہیں ہم نے انہیں مجبور نہ کیا تھا ۔

(ف163)

بلکہ وہ اپنی خواہشوں کے پرستار اور اپنی شہوات کے مطیع تھے ۔

وَ قِیْلَ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ وَ رَاَوُا الْعَذَابَۚ-لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا یَهْتَدُوْنَ(۶۴)

اور ان سے فرمایا جائے گا اپنے شریکوں کو پکارو (ف۱۶۴) تو وہ پکاریں گے تو وہ ان کی نہ سنیں گے اور دیکھیں گے عذاب کیا اچھا ہوتا اگر وہ راہ پاتے (ف۱۶۵)

(ف164)

یعنی کُفّار سے فرمایا جائے گا کہ اپنے بُتوں کو پکارو وہ تمہیں عذاب سے بچائیں ۔

(ف165)

دنیا میں تاکہ آخرت میں عذاب نہ دیکھتے ۔

وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ(۶۵)

اور جس دن اُنہیں ندا کرے گا تو فرمائے گا (ف۱۶۶) تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا (ف۱۶۷)

(ف166)

یعنی کُفّار سے دریافت فرمائے گا ۔

(ف167)

جو تمہاری طرف بھیجے گئے تھے اور حق کی دعوت دیتے تھے ۔

فَعَمِیَتْ عَلَیْهِمُ الْاَنْۢبَآءُ یَوْمَىٕذٍ فَهُمْ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ(۶۶)

تو اُس دن ان پر خبریں اندھی ہوجائیں گی (ف۱۶۸) تو وہ کچھ پوچھ گچھ نہ کریں گے (ف۱۶۹)

(ف168)

اور کوئی عذر اور حُجّت انہیں نظر نہ آئے گی ۔

(ف169)

اور غایت دہشت سے ساکت رہ جائیں گے یا کوئی کسی سے اس لئے نہ پوچھے گا کہ جواب سے عاجز ہونے میں سب کے سب برابر ہیں تابع ہوں یا متبوع ، کافِر ہوں یا کافِر گر ۔

فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِیْنَ(۶۷)

تو وہ جس نے توبہ کی (ف۱۷۰) اور ایمان لایا (ف۱۷۱) اور اچھا کام کیا قریب ہے کہ وہ راہ یاب ہو

(ف170)

شرک سے ۔

(ف171)

اپنے ربّ پر اور اس تمام پر جو ربّ کی طرف سے آیا ۔

وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُؕ-مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۶۸)

اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو چاہے اور پسند فرماتا ہے (ف۱۷۲) ان کا (ف۱۷۳) کچھ اختیار نہیں پاکی اور برتری ہے اللہ کو اُن کے شرک سے

(ف172)

شانِ نُزول : یہ آیت مشرکین کے جواب میں نازِل ہوئی جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوّت کے لئے کیوں برگزیدہ کیا ۔ یہ قرآن مکّہ و طائف کے کسی بڑے شخص پر کیوں نہ اتارا اس کلام کا قائل ولید بن مغیرہ تھا اور بڑے آدمی سے وہ اپنے آپ کو اور عروہ بن مسعود ثقفی کو مراد لیتا تھا ۔ اس کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ رسولوں کا بھیجنا ان لوگوں کے اختیار سے نہیں ہے اللہ تعالٰی کی مرضی ہے اپنی حکمت وہی جانتا ہے ، انہیں اس کی مرضی میں دخل کی کیا مجال ۔

(ف173)

یعنی مشرکین کا ۔

وَ رَبُّكَ یَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ(۶۹)

اور تمہارا رب جانتا ہے جو اُن کے سینوں میں چھپا ہے (ف۱۷۴) اور جو ظاہر کرتے ہیں (ف۱۷۵)

(ف174)

یعنی کُفر اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت جس کو یہ لوگ چھپاتے ہیں ۔

(ف175)

اپنی زبانوں سے خلافِ واقع جیسے کہ نبوّت میں طعن کرنا اور قرآنِ پاک کی تکذیب ۔

وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ٘-وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۷۰)

اور وہی ہے اللہ کہ کوئی خدا نہیں اُس کے سوا اسی کی تعریف ہے دنیا (ف۱۷۶) اور آخرت میں اور اسی کا حکم ہے (ف۱۷۷) اور اُسی کی طرف پھر جاؤ گے

(ف176)

کہ اس کے اولیاء د نیا میں بھی اس کی حمد کرتے ہیں اور آخرت میں بھی اس کی حمد سے لذّت اٹھاتے ہیں ۔

(ف177)

اسی کی قضاء ہر چیز میں نافذ و جاری ہے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ اپنے فرمانبرداروں کے لئے مغفرت کا اور نافرمانوں کے لئے شفاعت کا حکم فرماتا ہے ۔

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِضِیَآءٍؕ-اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ(۷۱)

تم فرماؤ (ف۱۷۸) بھلا دیکھو تو اگر اللہ ہمیشہ تم پر قیامت تک رات رکھے (ف۱۷۹) تو اللہ کے سوا کون خدا ہے جو تمہیں روشنی لادے (ف۱۸۰) تو کیا تم سُنتے نہیں (ف۱۸۱)

(ف178)

اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلِ مکّہ سے ۔

(ف179)

اور دن نکالے ہی نہیں ۔

(ف180)

جس میں تم اپنی معاش کے کام کر سکو ۔

(ف181)

گوشِ ہوش سے کہ شرک سے باز آؤ ۔

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِلَیْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِیْهِؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(۷۲)

تم فرماؤ بھلا دیکھو تو اگر اللہ قیامت تک ہمیشہ دن رکھے (ف۱۸۲) تو اللہ کے سوا کون خدا ہے جو تمہیں رات لادے جس میں آرام کرو (ف۱۸۳) تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں(ف۱۸۴)

(ف182)

رات ہونے ہی نہ دے ۔

(ف183)

اور دن میں جو کام اور محنت کی تھی اس کی تکان دور کرو ۔

(ف184)

کہ تم کتنی بڑی غلطی میں ہو جو اس کے ساتھ اور کو شریک کرتے ہو ۔

وَ مِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۷۳)

اور اس نے اپنی مہر(رحمت) سے تمہارے لیے رات اور دن بنائے کہ رات میں آرام کرو اور دن میں اس کا فضل ڈھونڈو (ف۱۸۵) اور اس لیے کہ تم حق مانو (ف۱۸۶)

(ف185)

کسبِ معاش کرو ۔

(ف186)

اور اس کی نعمتوں کا شکر بجا لاؤ ۔

وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ(۷۴)

اور جس دن اُنہیں ندا کرے گا تو فرمائے گا کہاں ہیں میرے وہ شریک جو تم بکتے تھے

وَ نَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا فَقُلْنَا هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوْۤا اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰهِ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠(۷۵)

اور ہر گروہ میں سے ہم ایک گواہ نکال کر(ف۱۸۷) فرمائیں گے اپنی دلیل لاؤ (ف۱۸۸) تو جان لیں گے کہ (ف۱۸۹) حق اللہ کا ہے اور ان سے کھوئی جائیں گی جو بناوٹیں کرتے تھے (ف۱۹۰)

(ف187)

یہاں گواہ سے رسول مراد ہیں جو اپنی اپنی اُمّتوں پر شہادت دیں گے کہ انہوں نے انہیں ربّ کے پیام پہنچائے اور نصیحتیں کیں ۔

(ف188)

یعنی شرک اور رسولوں کی مخالفت جو تمہارا شیوا تھا اس پر کیا دلیل ہے پیش کرو ۔

(ف189)

الٰہیت و معبودیتِ خاص ۔

(ف190)

دنیا میں کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے ۔