تحریر : عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

(جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں اہل سنت و جماعت کا اصولی موقف)

 

اہل سنت کے نزدیک جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منانا ایک مندوب، مستحب اور مستحسن عمل ہے. قرون اولی میں اصولی طور پر میلاد و فضائل کا تذکرہ ناقابل تردید دلائل سے ثابت ہے، یہ ان کے نزدیک نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ ہی مروجہ طرز پر سنت..البتہ یہ مستحب و مستحسن ہے. ان کے نزدیک اسے فرض و واجب قرار دینا بھی بدعت ہے اور حرام قرار دینا بھی بدعت ہے.

 

مستحب و مستحسن وہ عمل ہوتا ہے جس کو علماء و مشائخ نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہو. جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے کسی اچھے کام کا آغاز کیا تو اس کو اس کا اپنا بھی اجر ملے گا اور دیگر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا.

معلوم ہوا کہ کسی بھی مستحسن کام کی بنیاد رکھنے پر شریعت کوئی پابندی عائد نہیں کرتی.

مستحسن کام کے لیے بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد شریعت میں لازمی ہونی چاہیے، ورنہ وہ مستحسن نہیں سمجھا جائے گا.

 

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا میلاد النبی یعنی عظمت و فضائل مصطفی اور واقعات پیدائش کا تذکرہ قرآن و سنت اور قرون اولی میں موجود ہے یا نہیں، تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ سو فیصد موجود ہے.. جیسا کہ ذیل کے چند حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے..

حضورہرپیرکواپنےمیلادکی خوشی میں روزہ رکھتےتھے(مسلم )صحابہ کرام نےمسجدنبوی میں میلادکاتذکرہ کیاتوحضورنےاس پراللہ کےخوش ہونےکامژدہ سنایا(مسلم)ترمذی میں میلادالنبی کاباب موجودہے.حضورنےصحابہ کی محفل میں اپنانسب ومیلادبیان کیا(ترمذی)ابولہب کافرنےحضورکی ولادت پرلونڈی آزادکی تواس پراسےقبرمیں پانی پلاکر کچھ راحت دی جاتی ہے(بخاری)حضرت عائشہ کےپاس حضورپاک اورحضرت ابوبکرنےاپنےمیلادکاتذکرہ کیا(طبرانی)حضرت حسان نےمنبرپرحضورکےسامنےواجمل منک لم تلدالنساءکےاشعارسنا کر آپ کامیلادبیان کیا_حضرت ابن عباس نےاپنےنعتیہ قصیدہ میں میلادمصطفی بیان کیا_تمام کتب سیرت میں حضورکی پیدائش کےجملہ واقعات صحابہ سےمروی ہیں جووہ ایک دوسرے کوبیان کیا کرتےتھے.

 

اب رہ گیا یہ سوال کہ مروجہ طرز یعنی ربیع الاول بالخصوص بارہ تاریخ کو جھنڈوں، جلوسوں، نعروں اور چراغاں وغیرہ کی صورت میں میلاد منانا کس حد تک درست ہے؟ تو اس سلسلے میں اہل سنت کا اصولی موقف یہ ہے کہ جب میلاد و فضائل کے تذکرے قرآن و سنت اور قرون اولی سے ثابت ہیں اور شرعا مستحب کے درجے میں ہیں تو مستحبات میں ایسے امور کا اضافہ جنہیں شریعت نے ممنوع قرار نہ دیا ہو، قطعاً حرام نہیں ہے،(یہ اضافہ فرائض و واجبات میں حرام ہے) ہاں ایسے کسی ایک بھی کام کا اضافہ جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہو، بالکل ناجائز ہو گا اور اس کام سے رکنا فرض ہو گا. پس اہل سنت کے نزدیک ذکر میلاد کے مستحسن عمل میں تاریخ کی تخصیص، جلوس نکالنا، صدقہ کرنا، نعرے لگانا وغیرہ امور ایسے ہیں جن سے شریعت نے منع نہیں کیا، لہٰذا کسی کے ازخود انہیں حرام کہہ دینے سے یہ حرام نہ ہوں گے، ہاں شریعت میں نام بہ نام ان کی حرمت ثابت کر دی جائے تو ضرور حرام ہوں گے.

 

اس سلسلے میں یہ دلیل قطعاً ناکافی ہے کہ اس طرز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے میلاد نہیں منایا تو اس لیے حرام ہے ، اہل سنت کے نزدیک ایسی چیزیں قرون اولی میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے حرام نہیں ہوتیں بلکہ شرعی ممانعت سے حرام ہوتی ہیں.

اگر صرف نئی طرز کی وجہ سے میلاد کے مروج انداز کو حرام قرار دے دیا جائے تو پھر سیرت النبی کے نام پر ہونے والے وہ تمام جلسے بھی حرام ہوں گے جن میں بہرصورت نت نئی طرزیں داخل ہو چکی ہیں. مثلاً سیرت کے جلسوں کے اشتہارات چھاپ کر تداعی کرنا، تلاوت و نعت سے آغاز کرنا، تاریخ اور جگہ کی تخصیص کرنا وغیرہ.. کیونکہ اس طرز پر سیرت النبی کی محفلیں بھی قرون اولی میں نہیں دکھائی جا سکتیں.

اگر سیرت النبی کی یہ طرز جائز ہے تو پھر میلاد کی بھی جائز ہی ہونی چاہیے، اور اگر میلاد کی یہ طرز حرام ہے تو پھر سیرت کی بھی حرام ہی ہونی چاہیے.

 

مستحب امور میں اضافے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے حضور کے زمانے میں مسجدیں تو موجود تھیں مگر مروجہ طرز کی نقش و نگار والی،میناروں، محرابوں،موٹروں،صفوں، پنکھوں اور ٹوٹیوں وغیرہ والی مسجدیں نہیں تھیں تو کیا پھر مروجہ طرز کی مسجدیں بھی ناجائز ہوں گی؟

اگر میلاد کو نیکی سمجھ کر سر انجام دینا دین میں اضافہ ہے تو مسجد میں نیکی قرار دے کر پنکھے لگوانا کیوں دین میں اضافہ نہیں ہے.

 

باقی رہا اتنے چرچے اور خرچے کے ساتھ دھوم دھام سے میلاد کا مقصد کیا ہے؟ تو اہل سنت کے نزدیک نئی نسلوں کو رسول اللہ کی عظمتوں اور شانوں سے آگاہ کرنا اور ان کے دلوں میں رسول اللہ کی محبت پیدا کرنا ایک اہم ترین امر ہے، اسی کے پیش نظر یہ سب کچھ کیا جاتا ہے اور یہ معمول کوئی آج کل شروع نہیں ہوا بلکہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے.

نوٹ… یہ تو تھا ہمارا اصولی موقف ، باقی رہ گئے مزید اعتراضات کے طومار اور ان کے جوابات، تو ان کے حوالے سے ہزاروں کتابیں موجود ہیں، اس مختصر تحریر میں ان کی گنجائش نہیں ہے.