أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ اِنَّهٗ لَحَـقٌّ مِّثۡلَ مَاۤ اَنَّكُمۡ تَنۡطِقُوۡنَ۞

ترجمہ:

پس آسمان اور زمین کے رب کی قسم ! یہ قرآن ضرور برحق ہے ‘ جیسا کہ تمہارا کلام کرنا (برحق ہے)

الذریت : ٢٣ میں فرمایا : پس آسمان اور زمین کے رب کی قسم ! یہ قرآن ضرور برحق ہے (جیسا کہ) تمہارا کلام کرنا ( برحق ہے) ۔

اللہ تعالیٰ کی خبر کے برحق ہونے کو انسان کے کلام کے برحق ہونے سے تشبیہ کی وجوہ

اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر اس بات کو مؤکد فرمایا کہ اس نے جو حیات بعد الموت اور آسمان میں مخلوق کے رزق ہونے کی خبر دی ہے وہ ضرور سچی اور برحق ہے ‘ پھر اس کی مثال دی جس طرح تمہارا کلام اور گفتگو کرنا برحق ہے۔

اور باقی حواس کی بجائے بولنے کی مثال دی ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی حواس کے مدرکات میں اشتباہ ہوجاتا ہے ‘ مثلاً جب انسان دوڑتی ہوئی ٹرین یا بس میں بیٹھا ہوا ہو تو اس کو درخت دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں حالانکہ وہ ساکن ہوتے ہیں ‘ اسی طرح قوت ذائقہ کے مدر کات میں اشتباہ ہوجاتا ہے مثلاً پیلیا کے مریض کو میٹھی چیز بھی کڑوی معلوم ہوتی ہے ‘ اسی طرح خوشبو اور بدبو کے فرق کا پتا نہیں چلتا ‘ بعض لوگوں کو کم سنائی دیتا ہے ‘ صرف قوت گویائی ایسی طاقت ہے جس میں خلل نہیں ہوتا ‘ رہے گونگے انسان تو ان میں یہ قوت ہی نہیں ہوتی۔

علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

بعض حکماء نے کہا ہے کہ جس طرح انسان صرف اپنی زبان سے کلام کرسکتا ہے اور اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دوسرے کی زبان سے کلام کرے ‘ اسی طرح ہر انسان صرف اپنارزق کھاتا ہے اور اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دوسرے انسان کا رزق کھا سکے۔

حسن بصری نے کہا : مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس اقوم کو ہلاک کردے جن کے لیے خود اللہ عزوجل نے قسم کھا کر ایک بات فرمائی اور انہوں نے اس کی تصدیق نہیں کی ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آسمان اور زمین کے رب کی قسم ! یہ قرآن ضرور برحق ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٩١٩‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے رزق سے بھاگے تو اس کا رزق اس کا پیچھا کرے گا جیسا کہ موت اس کا پیچھا کرتی ہے۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال ج ٧ ص ١٢٩۔ ١٢٨‘ الفردوس بما ثورالخطاب رقم الدحیث : ٥٠٩٢‘ حلیۃ الاولیاء ج ٧ ص ٩٠۔ ج ٨ ص ٢٤٦ )

خالد کے دو بیٹے حبۃ اور سواء (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ‘ اس وقت آپ کوئی کام کررہے تھے ‘ ہم نے اس کام میں آپ کی مدد کی ‘ آپ نے فرمایا : جب تک تمہارے سرہل رہے ہیں تم رزق سے مایوس نہہو ‘ کیونکہ جب انسان اپنی ماں سے پیدا ہوتا ہے تو اس کے اوپر کوئی کپڑا نہیں ہوتا ‘ پھر اللہ اس کو رزق دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٦٥ )

القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات آیت نمبر 23