حدیث نمبر 763

روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن مسعود سے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ کو بخارتھا میں نے اپنے ہاتھ سے جسم اطہر چھوا توعرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم حضورکو بخار بہت ہی سخت آتا ہے ۱؎ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھ کو تمہارے دو شخصوں کے برابر بخار ہواکرتا ہےفرماتے ہیں میں نے عرض کیا یہ اس لیے ہوگا کہ حضورکو ثواب بھی دوگنا ہے ۲؎ فرمایا ہاں پھر فرمایا کوئی مسلمان ایسانہیں جسےکوئی تکلیف بیماری وغیرہ پہنچے مگر اﷲ تعالٰی اس کے گناہ یوں جھاڑ دیتا ہےجیسے درخت اپنے پتوں کو ۳؎(مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ تُوعَك وَعكٌ سے بنا،بمعنی بخار کی گرمی اور تکلیف۔اس جملہ سےمعلوم ہوا کہ غلام آقاکی مزاج پرسی بھی کرے اور اس کےجسم کو ہاتھ بھی لگائے۔خیال رہے کہ بخارمرضِ انبیاء ہے،ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بخار ہی سے ہوئی۔

۲؎ یہ ہے صحابہ کا ادب و احترام،یعنی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو وہم بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کی بیماری خطاؤں کی معافی کے لیے ہو،آپ کو گناہ و خطا سے نسبت ہی کیا،آپ کی بیماری صرف بلندیٔ درجات کے لیے ہوسکتی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جن چیزوں سے ہم گنہگاروں کے گناہ معاف ہوتے ہیں ان سے نیک کاروں کے درجے بڑھتے ہیں۔

۳؎ مسلمان سے مراد گنہگارمسلمان ہے۔بے گناہ مسلمان جیسے ابوبکرصدیق وغیرہم اور ناسمجھ بچے اس حکم سے علیحدہ ہیں،ان کے درجے بلند ہوں گے۔اس جملہ سے معلوم ہوا کہ لفظ مسلم اور مؤمن میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم داخل نہیں ہوا کرتے،یہ الفاظ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے ہیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم توعین ایمان ہیں،ہم نے اپنی “تفسیرنعیمی”پہلے پارے میں ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم میں”یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا”میں امت سے خطاب ہوتا ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم داخل نہیں ہوتے۔