اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ۪-وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِۗ-اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ(۷۶)

بےشک قارون موسیٰ کی قوم سے تھا (ف۱۹۱) پھر اس نے ان پر زیادتی کی اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دئیے جن کی کنجیاں ایک زور آور جماعت پر بھاری تھیں جب اُس سے اس کی قوم (ف۱۹۲) نے کہا اِترا نہیں (ف۱۹۳) بےشک اللہ اِترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا

(ف191)

قارون حضرت موسٰی علیہ السلام کے چچا یصہر کا بیٹھا تھا نہایت خوب صورت شکیل آدمی تھا اسی لئے اس کو منور کہتے تھے اور بنی اسرائیل میں توریت کا سب سے بہتر قاری تھا ، ناداری کے زمانہ میں نہایت متواضع و با اخلاق تھا ، دولت ہاتھ آتے ہی اس کا حال متغیر ہوا اور سامری کی طرح منافق ہوگیا ۔ کہا گیا ہے کہ فرعون نے اس کو بنی اسرائیل پر حاکم بنا دیا تھا ۔

(ف192)

یعنی مؤمنینِ بنی اسرائیل ۔

(ف193)

کثرتِ مال پر ۔

وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(۷۷)

اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر (ف۱۹۴) اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول (ف۱۹۵) اور احسان کر (ف۱۹۶) جیسا اللہ نے تجھ پر احسان کیا اور (ف۱۹۷)زمین میں فساد نہ چاہ بے شک اللہ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا

(ف194)

اللہ کی نعمتوں کا شکر کر کے اور مال کو خدا کی راہ میں خرچ کر کے ۔

(ف195)

یعنی دنیا میں آخرت کے لئے عمل کر کہ عذاب سے نَجات پائے اس لئے کہ دنیا میں انسان کا حقیقی حصہ یہ ہے کہ آخرت کے لئے عمل کرے ، صدقہ دے کر ، صلہ رحمی کر کے اور اعمالِ خیر کے ساتھ اور اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی صحت و قوت و جوانی و دولت کو نہ بھول اس سے کہ ان کے ساتھ آخرت طلب کرے ۔ حدیث میں ہے کہ پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھو جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، تندرستی کو بیماری سے پہلے ، ثروت کو ناداری سے پہلے ، فراغت کو شغل سے پہلے ، زندگی کو موت سے پہلے ۔

(ف196)

اللہ کے بندوں کے ساتھ ۔

(ف197)

معاصی اور گناہوں کا ارتکاب کر کے اور ظلم و بغاوت کر کے ۔

قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْؕ-اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًاؕ-وَ لَا یُسْــٴَـلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ(۷۸)

بولا یہ (ف۱۹۸) تو مجھے ایک علم سے ملا ہے جو میرے پاس ہے (ف۱۹۹) اور کیا اسے یہ نہیں معلوم کہ اللہ نے اس سے پہلے وہ سنگتیں(قومیں) ہلاک فرمادیں جن کی قوتیں اس سے سخت تھیں اور جمع اس سے زیادہ (ف۲۰۰) اور مجرموں سے اُن کے گناہوں کی پوچھ نہیں (ف۲۰۱)

(ف198)

یعنی قارون نے کہا کہ یہ مال ۔

(ف199)

اس علم سے مراد یا علمِ توریت ہے یا علمِ کیمیا جو اس نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے حاصل کیا تھا اور اس کے ذریعہ سے رانگ کو چاندی اور تانبے کو سونا بنا لیتا تھا یا علمِ تجارت یا علمِ زراعت یا اور پیشوں کا علم ۔ سہل نے فرمایا جس نے خود بینی کی فلاح نہ پائی ۔

(ف200)

یعنی قوت و مال میں اس سے زیادہ تھے اور بڑی جماعتیں رکھتے تھے انہیں اللہ تعالٰی نے ہلاک کر دیا پھر یہ کیوں قوت و مال کی کثرت پر غرور کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ ایسے لوگوں کا انجام ہلاک ہے ۔

(ف201)

ان سے دریافت کرنے کی حاجت نہیں کیونکہ اللہ تعالٰی ان کا حال جاننے والا ہے لہذا استعلام کے لئے سوال نہ ہوگا توبیخ و زجر کے لئے ہوگا ۔

فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖؕ-قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُۙ-اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ(۷۹)

تو اپنی قوم پر نکلا اپنی آرائش میں (ف۲۰۲) بولے وہ جو دنیا کی زندگی چاہتے ہیں کسی طرح ہم کو بھی ایسا ملتا جیسا قارون کو ملا بےشک اس کا بڑا نصیب ہے

(ف202)

بہت سے سوار جِلو میں لئے ہوئے ، زیوروں سے آراستہ ، حریری لباس پہنے آراستہ گھوڑوں پر سوار ۔

وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًاۚ-وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ(۸۰)

اور بولے وہ جنہیں علم دیا گیا (ف۲۰۳) خرابی ہو تمہاری اللہ کا ثواب بہتر ہے اس کے لیے جو ایمان لائے اور اچھے کام کرے (ف۲۰۴) اور یہ انہیں کو ملتا ہے جو صبر والے ہیں (ف۲۰۵)

(ف203)

یعنی بنی اسرائیل کے عُلَماء ۔

(ف204)

اس دولت سے جو دنیا میں قارون کو ملی ۔

(ف205)

یعنی عملِ صالح صابرین ہی کا حصہ ہیں اور اس کا ثواب وہی پاتے ہیں ۔

فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ- فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِۗ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ(۸۱)

تو ہم نے اُسے (ف۲۰۶) اور اُس کے گھر کو زمین میں دھنسادیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ سے بچانے میں اس کی مدد کرتی (ف۲۰۷) اور نہ وہ بدلہ لے سکا (ف۲۰۸)

(ف206)

یعنی قارون کو ۔

(ف207)

قارون اور اس کے گھر کے دھنسانے کا واقعہ علماءِ سیر و اخبار نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے جانے کے بعد مذبح کی ریاست حضرت ہارون علیہ السلام کو تفویض کی بنی اسرائیل اپنی قربانیاں حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس لاتے اور وہ مذبح میں رکھتے آ گ آسمان سے اُتر کر ان کو کھا لیتی قارون کو حضرت ہارون کے اس منصب پر رشک ہوا اس نے حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کہا کہ رسالت تو آپ کی ہوئی اور قربانی کی سرداری حضرت ہارون کی ، میں کچھ بھی نہ رہا باوجود یکہ میں توریت کا بہترین قاری ہوں میں اس پر صبر نہیں کر سکتا ۔ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ منصب حضرت ہارون کو میں نے نہیں دیا اللہ نے دیا ہے قارون نے کہا خدا کی قسم میں آپ کی تصدیق نہ کروں گا جب تک آپ اس کا ثبوت مجھے دکھا نہ دیں حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے رؤساءِ بنی اسرائیل کو جمع کر کے فرمایا کہ اپنی لاٹھیاں لے آؤ انہیں سب کو اپنے قبہ میں جمع کیا ، رات پھر بنی اسرائیل ان لاٹھیوں کا پہرہ دیتے رہے صبح کو حضرت ہارون علیہ السلام کا عصا سرسبز و شاداب ہو گیا ، اس میں پتے نکل آئے ، حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا اے قارون تو نے یہ دیکھا ؟ قارون نے کہا یہ آپ کے جادو سے کچھ عجیب نہیں حضرت موسٰی علیہ السلام اس کی مدارت کرتے تھے اور وہ آپ کو ہر وقت ایذا دیتا تھا اور اس کی سرکشی اور تکبُّر اور حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ عداوت دم بدم ترقی پر تھی ، اس نے ایک مکان بنایا جس کا دروازہ سونے کا تھا اور اس کی دیواروں پر سونے کے تختے نصب کئے بنی اسرائیل صبح و شام اس کے پاس آتے ، کھانے کھاتے ، باتیں بناتے ، اسے ہنساتے ، جب زکوٰۃ کا حکم نازِل ہوا تو قارون موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس آیا تو اس نے آپ سے طے کیا کہ درہم و دینار و مویشی وغیرہ میں سے ہزارواں حصہ زکوٰۃ دے گا لیکن گھر جا کر حساب کیا تو اس کے مال میں سے اتنا بھی بہت کثیر ہوتا تھا اس کے نفس نے اتنی بھی ہمّت نہ کی اور اس نے بنی اسرائیل کو جمع کر کے کہا کہ تم نے موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ہر بات میں اطاعت کی اب وہ تمہارے مال لینا چاہتے ہیں کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا آپ ہمارے بڑے ہیں جو آپ چاہیں حکم دیجئے کہنے لگا کہ فلانی بدچلن عورت کے پاس جاؤ اور اس سے ایک معاوضہ مقرر کرو کہ وہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام پر تہمت لگائے ایسا ہوا تو بنی اسرائیل حضرت موسٰی علیہ السلام کو چھوڑ دیں گے چنانچہ قارون نے اس عورت کو ہزار اشرفی اور ہزار روپیہ اور بہت سے مواعید کر کے یہ تہمت لگانے پر طے کیا اور دوسرے روز بنی اسرائیل کو جمع کر کے حضرت موسٰی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ بنی اسرائیل آپ کا انتظار کر رہے ہیں کہ آپ انہیں وعظ و نصیحت فرمائیں حضرت تشریف لائے اور بنی اسرائیل میں کھڑے ہو کر آپ نے فرمایا کہ اے بنی اسرائیل جو چوری کرے گا اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے جو بہتان لگائے گا اس کے اسی کوڑے لگائے جائیں گے اور جو زنا کرے گا اس کے اگر بی بی نہیں ہے تو سو کوڑے مارے جائیں گے اور اگر بی بی ہے تو اس کو سنگسار کیا جائے گا یہاں تک کہ مر جائے ، قارون کہنے لگا کہ یہ حکم سب کے لئے ہے خواہ آپ ہی ہوں فرمایا خواہ میں ہی کیوں نہ ہوں کہنے لگا کہ بنی اسرائیل کا خیال ہے کہ آپ نے فلاں بدکار عورت کے ساتھ بدکاری کی ہے حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا اسے بلاؤ وہ آئی تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا اس کی قَسم جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا پھاڑ ا اور اس میں رستے بنائے اور توریت نازِل کی سچ کہہ دے وہ عورت ڈر گئی اور اللہ کے رسول پر بہتان لگا کر انہیں ایذاء دینے کی جرأت اسے نہ ہوئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ اس سے توبہ کرنا بہتر ہے اور حضرت موسٰی علیہ السلام سے عرض کیا کہ جو کچھ قارون کہلانا چاہتا ہے اللہ عزوجل کی قَسم یہ جھوٹ ہے اور اس نے آپ پر تہمت لگانے کے عوض میں میرے لئے بہت مالِ کثیر مقرر کیا ہے ۔ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے ربّ کے حضور روتے ہوئے سجدہ میں گرے اور یہ عرض کرنے لگے یا ربّ اگر میں تیرا رسول ہوں تو میری وجہ سے قارون پر غضب فرما اللہ تعالٰی نے آپ کو وحی فرمائی کہ میں نے زمین کو آپ کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا ہے آپ اس کو جو چاہیں حکم دیں ۔ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ و السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا اے بنی اسرائیل اللہ تعالٰی نے مجھے قارون کی طرف بھیجا ہے جیسا فرعون کی طرف بھیجا تھا جو قارون کا ساتھی ہو اس کے ساتھ اس کی جگہ ٹھہرا رہے جو میرا ساتھی ہو جدا ہو جائے ، سب لوگ قارون سے جدا ہو گئے اور سوا دو شخصوں کے کوئی اس کے ساتھ نہ رہا پھر حضرت موسٰی علیہ السلام نے زمین کو حکم دیا کہ انہیں پکڑ لے تو وہ گھٹنوں تک دھنس گئے پھر آپ نے یہی فرمایا تو کمر تک دھنس گئے آپ یہی فرماتے رہے حتی کہ وہ لوگ گردنوں تک دھنس گئے اب وہ بہت منّت و لجاجت کرتے تھے اور قارون آپ کو اللہ کی قسمیں اور رشتہ و قرابت کے واسطے دیتا تھا مگر آپ نے التفات نہ فرمایا یہاں تک کہ وہ بالکل دھنس گئے اور زمین برابر ہو گئی ۔ قتادہ نے کہا کہ وہ قیامت تک دھنستے ہی چلے جائیں گے ، بنی اسرائیل نے کہا کہ کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے قارون کے مکان اور اس کے خزائن و اموال کی وجہ سے اس کے لئے بددعا کی یہ سن کر اللہ تعالٰی سے دعا کی تو اس کا مکان اور اس کے خزانے و اموال سب زمین میں دھنس گئے ۔

(ف208)

حضرت موسٰی علیہ السلام سے ۔

وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْكَاَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُۚ-لَوْ لَاۤ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَاؕ-وَیْكَاَنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۠(۸۲)

اور کل جس نے اس کے مرتبہ کی آرزو کی تھی صبح (ف۲۰۹) کہنے لگے عجب بات ہے اللہ رزق وسیع کرتا ہے اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے (ف۲۱۰) اگر اللہ ہم پر احسان نہ فرماتا تو ہمیں بھی دھنسادیتا اے عجب کافروں کا بھلا نہیں

(ف209)

اپنی اس آرزو پر نادم ہو کر ۔

(ف210)

جس کے لئے چاہے ۔