ایسا نہ کہئے۔۔۔ کچھ ہماری بھی سن لیجئے
ایسا نہ کہئے۔۔۔ کچھ ہماری بھی سن لیجئے !
سوشل میڈیا سے دل اچاٹ ہوگیا ہے، ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں اہلِ علم میں شمار کئے جانے والے احباب بھی ایسی ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ عادت کچھ ایسی ہے کہ غلط بات دیکھ کر رُکا نہیں جاتا فوراً توجہ دلانے کی ترکیب ہوتی ہے۔ توجہ دلائے بغیر قرار نہیں آتا اور مسلسل توجہ دلانے سے آپ کا تاثر ”نکتہ چیں“اور ”ناقد“ بن کر رہ جاتا ہے خیر ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ ہمارے اسلاف امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں لومۃ لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اللہ کریم ہمیں بھی اُن جیسا جذبہ عطا کرے۔ آمین
ایک ذو الاحترام صاحبِ علم کی تحریر پڑھی، جس میں واصف علی واصف صاحب کی شان و فضیلت میں چند صفحات منسلک کرنے کے بعد آخر میں میں جملہ لکھا تھا:
”اگر کوئی صاحب فقیر پر فتوی لگانا چاہیں تو فقیر حاضر ہے۔“
یہ لب و لہجہ درست نہیں ہے،آپ کے جملوں سے یہ تاثر پیدا ہوتا کہ اگر آپ کے موقف کے خلاف شرعی رہنمائی آجائے تب بھی آپ کو پرواہ نہیں، یہ جرات اور بے باکی صاحبِ علم کو بالکل بھی نہیں جچتی۔ اگر صاحبانِ علم ایسے کلمات عام کریں گے تو عوام کی نظر میں فتوے کی کیا وقعت رہ جائے گی ؟
ایسی جراتیں عوام کو جری و بیباک کردیتی ہیں پھر وہی کچھ دیکھنے سننے کو ملتا ہےجس میں مولوی اور فتوے کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
٭اولیائے کرام اور واصف علی واصف وغیرہ٭
جس مسلمان بھائی تک یہ تحریر پہنچے اُس پر ایک معاملہ واضح ہوجانا ضروری ہے۔
ہمیں اللہ والوں کی اتباع کا حکم ہے، اللہ والے کون ہیں، خود اللہ کریم نے بیان فرمادیا:
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ (یونس: 63) یعنی وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور پرہیزگاری کرتے ہیں۔
اللہ کریم نے ایمان اور تقوی ولایت کی بنیاد بیان فرمائی ہے۔
یہ ممکن ہے کہ کسی فاسق شخص کا کوئی عمل بارگاہِ الہی میں مقبول ہو اور اسے درجات کی بلندی و فضیلت عطا ہو، ممکن ہے وہ بہت سی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے مگر ولایت جو قربتِ خاصہ کا نام ہے، کے مقام پر فائز نہیں ہوسکتا۔ بدل ، فرد، غوث، قطب اور ولایت کے جتنے درجات ہیں سب کے لئے ایک ہی معیار ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر سختی سے عمل ہے۔
لہذا واصف علی واصف صاحب اوران جیسے دیگر صوفی مزاج شعرا، ادبا اور کالم نگاروں کے اچھے اقوال بیان کرنے میں حرج نہیں مگر انہیں ولایت کے منصب پر بٹھا کر مجددِ ؔطریقت، قطبِ ؔارشاد، صاحبِؔ ارشاد، صاحبِؔ رمز و صاحبِؔ حال کے القابات سے نوازنا غلوہے۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو اس سے بچنا ضروری ہے۔
امام اہلسنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب مقال عرفا میں اولیائے امت کے اقوال نقل فرماتے ہیں:
1۔ حضرت سیدنا بایزید بسطامی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک دوسرے بزرگ سے فرمایا چلو اس شخص کو دیکھیں جس نے اپنے آپ کو ولایت کے نام سے مشہور کیا ہے وہ شخص زہد و تقوی میں مشہور تھا اور لوگ بکثرت اس کے پاس آیا کرتے تھے جب حضرت بایزید رضی اﷲتعالیٰ عنہ وہاں تشریف لے گئے اتفاقاً اس شخص نے قبلہ کی طرف تھوکا حضرت بایزید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فوراً واپس پلٹ آئے اور اس شخص سے سلام بھی نہ کیا اور فرمایا ” یہ شخص نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آداب میں سے ایک ادب پر تو امین ہے نہیں جس چیز کا (یعنی ولایت کا )دعویٰ کرتا ہے اس پر کیا امین ہوگا۔“ (رسالہ قشیریہ، صفحہ 17)
2۔ اور دوسری روایت میں ہے فرمایا :
”یہ شخص شریعت کے ایک ادب پر تو امین ہے نہیں اسرار الٰہیہ پر کیسے امین ہوگا۔“ (رسالہ قشیریہ، صفحہ 153، مصر)
3۔ حضرت عثمان حیری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انتقال کے وقت اپنے صاحبزادے ابو بکر علیہ الرحمۃ سے فرمایا:
”اے میرے بیٹے ! ظاہر میں سنت کی خلاف ورزی اس بات کی علامت ہے کہ باطن میں ریا کاری ہے۔“ (رسالہ قشیریہ، صفحہ 15، مصر)
4۔ حضرت حارث محاسبی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو بڑے بڑے ائمہ و اولیاء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور حضرت سری سقطی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہم زمانہ بزرگوں میں سے ہیں فرماتے ہیں:
”جو شخص اپنے باطن کو مراقبہ اور اخلاص سے صحیح کرلے گا اﷲ تعالیٰ اس کے ظاہر کو مجاہدہ ا ور سنت کی پیروی سے آراستہ کردے گا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ جس آدمی کا ظاہر شریعت کے زیور سے آراستہ نہیں وہ باطن میں بھی اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص نہیں رکھتا۔ (اعلی حضرت)
مزید یہ کہ ہماری سوفیصدی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ علمائے کرام اولیائے عظام رحمہم اللہ کے فرامین ہی شئیر کئے جائیں کیونکہ یہی لوگ اللہ کے سچے ولی ہیں اور ان کے ارشادات و کلمات میں برکت رکھی گئی ہے۔
ابو محمد عارفین القادری
11 اکتوبر 2021ء
عروس البلاد کراچی