چمن پوری کی جہالت بھری نئی تحریر کا علمی و تحقیقی محاسبہ

ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 

موصوف اہلسنت جماعت میں کالی بھیڑ کی حیثیت رکھتا ہے اور آئے دن یہ اصحاب رسولﷺ پر اور کوئی نہ کوئی اعتراض کرتا رہتا ہے کچھ عرصے پہلے اس دعوت اسلامی کے اس نعرے سے بھی خارش تھی کہ ” ہر صحابی نبیﷺ جنتی جنتی”

یعنی یہ رافضیت کا کٹھ پتلی کو یہ بھی منظور نہیں تھا کہ اہلسنت ہر صحابی رسولﷺ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ وہ سب جنتی ہیں اسکی ایک تحریر باغ فدک کے موضوع پر ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور وہ تحریر اسکے چیلوں تک پہنچی لیکن ہماری تحریرکا آج تک رد نہیں آیا اسکی طرف سے ۔ یہاں تک کہ ہم کو اسکی جہالت سے بھرپور ایک نئی تحریر موصول ہوئی ہے جسکی حقیقت آپ آگے پڑھینگے۔

 

موصوف نے غیر ثابت اقوال جو ائمہ اہلسنت محدثین کی طرف منسوب ہیں انکو من و عن نقل کر کے اس سے بڑے بڑے استدلال جھاڑ کر محقق اشرف آصف جلالی پر سوالات کھڑے کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ہم اسکے دعوے اور دلائل پہلے من و عن نقل کرینگے پھر اسکی حقیقت واضح کرینگے دلائل کے ساتھ ۔

موصوف کی تحریر کی سرخی کچھ یوں ہے :

”اب تو بولو ۔۔۔ اشرف دجالی (جلالی صاحب) کی دعوت گستاخی”

موصوف جو پہلی روایت اپنے دعویٰ پر نقل کرتا ہے وہ درج ذیل ہے

 

۱۔ مخلد شعیری کہتے ہیں کہ حافظ عبد الرزاق بن ھمام کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے حضرت معاویہ ؓ کا ذکر چھیڑا ۔ اس کی بات سنتے ہی حافظ عبد الرزاق بن ھمام نے کہا:

”لا تقذر مجلسنا بذكر ولد أبي سفيان”

ابو سفیان کے بچے کا ذکر کرکے ہماری مجلس کو گندہ نہ کرو ۔

[الضعفاء الکبیر للعقیلی جلد ، ۳ ، ص ۱۰۷]

 

اسکے بعد موصوف نے چند سوالات کھڑے کیے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

۱۔کیا حافظ عبدالرزاق کے اس جملے کو دلیل بناتے ہوئے لوگوں کو حضرت معاویہؓ کے بارے میں ایسا بولنے کی چھوٹ دی جا سکتی ہے ؟

۲۔کیا حاظ عبد الرزق جیسی شخصیت کی اس بات کو حجت بنا کر اس عمل کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب (اسد الطحاوی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سب سے پہلے ہم چمن پوری میاں کی نقل کردہ روایت کی اسنادی حیثیت بیان کرتے ہیں چونکہ سندھ کے تفضیلیوں کے محقق صاحب نے نہ ہی سند کو نقل کرنا گوارا کیا اور نہ ہی راویان کی تفصیل دینا گوارا سمجھا کیونکہ اگر وہ یہ کر دیتے تو انکے جھوٹ کاپول کھل جانا تھا امام عقیلی نے اپنی ضعفاء میں مذکورہ روایت کو درج ذیل سند سے نقل کیا ہے :

 

حدثني أحمد بن زكير الحضرمي قال: حدثنا محمد بن إسحاق بن يزيد البصري قال: سمعت مخلدا الشعيري يقول: كنت عند عبد الرزاق فذكر رجل عند معاوية فقال: لا تقذر مجلسنا بذكر ولد أبي سفيان.

امام عقیلی کہتے ہیں مجھے بیان کیا احمد بن زکیر نے انہوں نے کہا مجھے بیان کیا محمد بن اسحاق بن یزید بصری نے انہوں نے کہا میں نے سنا مخلد بن خالد شعیری سےوہ کہتے ہیں میں حافظ عبد الرزاق کے پاس تھا انکے پاس ایک شخص نے حضرت معاویہؓ کا ذکر کیا تو انہوں (امام عبد الرزاق) نے کہا : ” ابو سفیان کے بچے کا ذکر کرکے ہماری مجلس کو گندہ نہ کرو ۔ ”

 

اب آتے ہیں سند کی تحقیق پر :

 

۱۔ پہلا راوی أحمد بن زكير الحضرميہے کتب رجال میں اسکی کوئی تفصیل نہیں ملتی ہے یعنی یہ راوی مجہول ہے

 

۲۔دوسرا راوی محمد بن إسحاق بن يزيد البصري ہے

یہ راوی کذاب تھا جیسا کہ مندرجہ ذیل ائمہ نے اسکی تصریح کی ہے امام ابن ابی حاتم اسکے بارے فرماتے ہیں :

 

محمد بن اسحاق الصينى روى عن عبد الله بن نافع الصائغ وعبد الله بن داود الخريبي كتبت عنه بمكة، نا عبد الرحمن قال وسألت ابا عون ابن عمرو بن عون عنه فتكلم فيه وقال هو كذاب فتركت حديثه۔

 

محمد بن اسحاق جو کہ عبداللہ بن نافع اور عبداللہ بن داود سے روایت کرتا ہے میں نے مکہ کے مقام پر اس سے لکھا ہے ۔ پھر امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے ابو عون بن عمرو سے اسکے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا اس کے بارے کلام کیا گیا ہے اور پھر انہوں نے کہا کہ یہ (میری تحقیق میں ) کذاب ہے اور میں نے اسکی احادیث کو ترک کر دیا ۔

[الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم ، برقم:۱۱۰۰]

 

نیز امام خطیب بغدادی نے بھی اس راوی کے مکمل نام کی تصریح کرتے ہوئے امام ابن ابی حاتم نے مذکورہ جرح کو نقل کیا ہے

 

محمد بن إسحاق بن يزيد أبو عبد الله يعرف بالصيني

وَقَالَ عبد الرحمن بن أبي حاتم الرازي: كتبت عنه بمكة، وسألت عنه أبا عون عمرو بن عون فتكلم فيه، وَقَالَ: هو كذاب، فتركت حديثه.

[تاریخ بغداد ، جلد ۲، ص ۴۲]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اب ہم آتے ہیں کہ امام عبد الرزاق کے نزدیک حضرت امیر معاویہؓ کا مقام تو صحابی رسولﷺ جیسا تھا بلکہ انہوں نے اپنی کتب میں ان سے مروی روایات کو نقل بھی کیا ہے اور ان سے حجت بھی قائم کی ہے

جیسا کہ وہ اپنی لکھتے ہیں :

أخبرنا ابن جريج قال: أخبرني عمر بن عطاء بن أبي الخوار أن نافع بن جبير، أرسله إلى السائب بن يزيد يسأله عن شيء رآه منه معاوية في الصلاة قال: صليت معه الجمعة في المقصورة، فلما سلم قمت في مقامي وصليت، فلما دخل أرسل إلي، فقال: لا تعد لما فعلت، إذا صليت الجمعة فلا تصلها بصلاة حتى تتكلم، أو أن تخرج؛ فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بذلك، وبه نأخذ

 

امام عبد الرزاق کہتے ہیں مجھے خبر دی ابن جریج نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی عمر بن عطا وہ بیان کرتے ہیں نافع بن جبیر نے انہیں سائب بن یزید کے پاس بھیجا تاکہ ان سے اس چیز کے بارے دریافت کریں جو انہوں نے نماز کے بارے میں حضرت معاویہؓ کے ہاں دیکھی تھی ۔ تو انہوں نے جواب دیا میں نے حضرت معاویہؓ کے ساتھ مقصورہ میں جمعہ کی نمازادا کی ، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں اپنی جگہ پر کھڑا ہوا ۔ میں نے نماز ادا کی ، جب میں داخل ہوا تو انہوں نے پیغام دے کر مجھے بلوایا اور فرمایا : تم نے جو کیا ہے وہ دوبارہ نہ کرنا ، جب تم جمعہ کی نماز ادا کر لوتو اس کے ساتھ کوئی اور نماز اس وقت تک ادا نہ کرنا جب تک تم کوئی کلام نہیں کرتے یا نکل نہیں جاتے (نماز سے ) کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اس بات کا حکم دیا ہے

(امام عبدالرزاق فرماتے ہیں ) : ہم اسکے مطابق فتویٰ دیتے ہیں

[مصنف عبد الرزاق برقمؒ:۵۵۳۴]

 

معلوم ہوا امام عبد الرزاق کے ہاں تو حضرت امیر معاویہؓ حجت کے مقام پر ہیں اور انکی بیان کردہ روایت کو امام عبد الرزاق نے اپنی دلیل بنایا اور انکی روایت کے تحت فتویٰ دیتے تھے تو ثابت ہوا کہ امام عبد الرزاق کے نزدیک حضرت امیر معاویہؓ نبی اکرمﷺ کے صحابی رسولﷺ ہیں اور انکی عزت و تکریم انکے نزدیک مسلمہ ہے ۔

 

البتہ امام عبدالرزاق شروعاتی دور میں ان میں قلیل تشیع پن تھا لیکن انہوں نے اس موقف سے بھجی رجوع کر لیا تھا جسکے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :

 

جیسا کہ امام عبد اللہ بن احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں :

حدثني سلمة بن شبيب قال سمعت عبد الرزاق يقول والله ما انشرح صدري قط أن أفضل عليا على أبي بكر وعمر ورحم الله أبا بكر ورحم الله عمر ورحم الله عثمان ورحم الله عليا ومن لم يحبهم فما هو بمؤمن وإن أوثق عملي حبي إياهم

امام عبداللہ کہتے ہیں مجھے بیان کیا سلمہ بن شبیب وہ کہتے ہیں میں نے امام عبد الرزاق کو کہتے سنا :

میرا دل ا س بات پر کبھی مطمئن نہیں ہوا کہ میں مولا علی ؓ کو حضرت ابو بکر صدیقؓ ااور حضرت عمرؓ پر فضیلت دوں ، حضرت ابو بکر صدیق پر اللہ کی رحمت ہو ، حضرت عمر فارقؓ پر اللہ کی رحمت ہو ، حضر ت عثمانؓ پر اللہ کی رحمت ہو اور حضرت علیؓ پر رحمت ہو ۔

جو ان سے محبت نہیں کرتا وہ مومن نہیں ہے ۔ اور میں اپنے اعمال پر یقین رکھتا ہوں تو میں ان سے محبت کرتا ہوں

[لعلل ومعرفة الرجال عبداللہ بن احمد ، برقم: ۱۵۴۶]

 

سند کے رجال کا مختصر تعارف!

۱۔امام عبداللہ بن احمد بن حنبل متفقہ علیہ ثقہ

۲۔ امام سلمة بن شبيب أبو عبد الرحمن الحجري ،

امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں : الإمام، الحافظ، الثقة ”یہ امام حافظ اور ثقہ ہیں ”

[سیر اعلام النبلاء برقم: ۹۷]

 

مذکورہ تحقیق سے معلوم ہوا چمن پوری نے ایک جھوٹی روایت کو اپنے دعویٰ کی بنیاد بنائی اور پھر اس غیر ثابت جھوٹی روایت پر سوالات گھڑے جو کہ فضول ثابت ہوئے اور لوگوں کو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ امام عبد الرزاقؒ کے نزدیک حضرت امیر معایہؓ کوئی معاذاللہ متنازع شخصیت ہے جبکہ حقیتت سے دور دور تک اسکا کوئی تعلق نہیں بلکہ امام عبد الرزاق نہ صرف حضرت امیر معاویہ ؓ کو درجہ صحابیت پر تسلیم کرتے بلکہ ان کو احکام میں حجت قرار دیتے اور ان سے استدلال کرتے

نیز تفضیلی موقف سے انہوں نے رجوع کر لیا تھا جسکی تصریح باسند صحیح اوپر پیش کر چکے ہیں ۔

ان شاءاللہ انکے دیگر دلائل کی بھی حقیقت بیان ہوگی جاری ہے ۔۔۔۔

 

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی