کیا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ صحابی رسول ھند بن ابی ھاله اور تابعی جلیل سیدنا اویس قرنی رضی الله عنه کو ضعیف کہتے ہیں؟؟
کیا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ صحابی رسول ھند بن ابی ھاله اور تابعی جلیل سیدنا اویس قرنی رضی الله عنه کو ضعیف کہتے ہیں؟؟
مفتی چمن زمان نجم القادری صاحب نے اپنی تحریر میں مدمقابل کو زچ کرنے کے لیے کچھ روایات کا سہار لیا اس پر اپنی تحریر کی پوری عمارت کھڑی کردی اور محدثین کی طرف بغیر تحقیق کے غلط باتیں منسوب کردی ہم ذیل میں اسکی حقیقت کو واضح کرتے ہیں
چنانچہ مفتی چمن زمان صاحب لکھتے ہیں
امام بخاری کو دیکھیے حضرت ہند بن ابی ہالہ جو وصاف رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں امام بخاری نے انہیں ضعفاء شمار کرڈالا
(الضعفاء الصغیر ص138)
انہی امام بخاری کے حوالے سے عقیلی نے سید التابعین جناب اویس قرنی کو بھی ضعفاء شمار کرڈالا
(التاریخ الکبیر ج2ص 55 الضعفاء الکبیر للعقیلی ج1ص 135)
(اشرف دجالی کی گستاخی ص3)
اقول بااللہ توفیق!
عبارت میں خیانت
اولا:چمن زمان صاحب نے کمال خیانت کا مظاہرہ کیا اور دونوں عبارات کا اپنی طرف سے ترجمہ تراش کر عوام کو دھوکہ دیا افسوس کوئی کسی کی مخالفت میں کس حد تک گر سکتا ہے ہم ذیل میں دونوں کا مکمل عربی متن پیش کرتے ہیں جس سے قارئین پر واضح ہوگا کہ عبارت کا کتنا غلط ترجمہ پیش کیا گیا
چنانچہ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں
هِنْد بن أبي هَالة وَكَانَ وصافا للنَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم روى عَنهُ الْحسن بن عَليّ ويتكلمون فِي إِسْنَاده
ھند بن ابی ھاله نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرنی والے ہیں ان سے حسن بن علی روایت کرتے ہیں محدثین نے ان سے مروی روایات کی اسناد میں کلام کیا ہے
[الضعفاء الصغير للبخاري ص118 ناشر دار الوعي حلب]
دوسری عبارت کے ترجمہ میں خیانت
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمة الله علیه لکھتے ہیں
أويس القرني أصلَهُ من اليمن، فِي إسناده نظر
اویس قرنی یمن سے تعلق رکھتے ہیں انکی مروی روایات کی سند میں کلام ہے
[التاريخ الكبير للبخاري ج 2ص 55 دار المعرفة حيدر آباد]
اب میں چمن زمان صاحب سے پوچھتا ہوں یتکلمون فی اسنادہ کا ترجمہ کیا یہ بنتا تھا”ھند بن ابی ھاله ضعیف ہیں” اس میں “فی اسنادہ” کے ترجمہ کو کس دلیل سے آپ نے حذف کردیا؟
کیا فی اسنادہ نظر کا ترجمہ یہ بنتا تھا اویس قرنی ضعیف ہیں فی اسناده نظر کا ترجمہ کیوں نہیں کیا گیا؟؟یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسکا عربی متن تحریر میں ذکر نہیں کیا تاکہ پڑھنے والوں کو دھوکہ دیا جاسکے
یتکلمون فی اسنادہ،فی اسنادہ نظر سے کیا مراد ہے؟؟
ثانیا:یتکلمون فی اسنادہ اور فی اسنادہ نظر سے امام بخاری رحمة الله علیه کی مراد ہرگز ہر جگہ یہ نہیں ہوتا کہ راوی ضعیف ہے بلکے اکثر اس سے مراد سند کے اعتبار سے ضعف مراد ہوتا ہے اور یہاں بھی سند کا ذکر ہے
(1)امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمة الله عليه كی اپنی تصریح
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمة الله علیه نے خود تصریح فرمائی ہے کہ انکی مراد ان سے مروی روایات کا ضعف ہے
….
چنانچہ امام ابو احمد بن عدی الجرجاني(المتوفي 365ھ) فرماتے ہیں
سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ أويس القرني أصله من اليمن مرادي فِي إسناده نظر فيما يرويه
امام ان حماد کہتے ہیں امام بخاری فرماتے ہیں اویس القرنی یمن سے ہیں انکی سند میں نظر جو ان سے روایت کیا گیا ہے
[الكامل في ضعفاء الرجال ج2ص109 الكتب العلمية بيروت لبنان]
(2)امام شمس الدین الذھبی رحمة الله علیه کی تصریح
….
امام شمس الدین ابو عبدالله محمد بن احمد الذھبی(المتوفي 748ھ) رحمه الله علیه امام بخاری رحمۃ الله علیه کے اس کلام پر فرماتے ہیں
قلت: هذه عبارته، يريد أن الحديث الذي روى عن أويس في الإسناد إلى أويس نظر ولولا أن البخاري ذكر أويساً في الضعفاء لما ذكرته أصلا، فإنه من أولياء الله الصادقين، وما روى الرجل شيئا فيضعف أو يوثق من أجله.
میں(ذھبی)کہتا ہوں اس عبارت کے اویس سے مروی روایت کی سند میں نظر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ حدیث جو اویس قرنی سے روایت کی گئی اسکی اویس قرنی تک سند میں ضعف ہے اگر امام بخاری اسکو اپنی کتاب ضعفاء میں شمار نہ کرتے تو میں بھی نہ کرتا کیونکہ یہ صدیقین اولیاء میں سے ہیں کوئی شخص کوئی چیز روایت کرتا ہے اس سے وجہ سے یا تو توثیق کی جاتی ہے یا تضعیف کی جاتی ہے
(ميزان الاعتدال ج1ص 279 دار المعرفة بيروت لبنان)
امام قاسم قطلوبغا الحنفی رحمة الله عليه کی تصریح
…..
امام ابو الفداء زین الدین قاسم بن قطلوبغا الحنفی(المتوفی 879ھ) رحمة الله عليه فرماتے ہیں
وذكره البخاري في الضعفاء وقال في إسناده نظر قلت هذا مما لا معنى له فإنه إن أراد أن في إسناد هذا الحديث الذي يُروى عنه نظر كما هو الواقع فلا يذكر الرجل بسبب ذلك في الضعفاء وإن أراد إسناد هذا الحديث الذي رواه أويس فهو لم يرو حديثاً قط
امام بخاری نے انکا ذکر کتاب الضعفاء میں کیا ہے اور کہا ہے کہ انکی اسناد میں نظر ہے
میں(قاسم قطلوبغا) کہتا ہوں اسکا کوئی معنی نہیں ہے کیونکہ اگر اس سے مراد یہ کہ اگر انکی حدیث جو ان سے روایت کی جاتی ہے اس میں نظر ہے تو اس شخص کو ضعفاء میں ذکر نہیں کیا جاتا اور اگر مراد یہ ہے کہ اس حدیث کی وہ اسناد جنکو اویس نے روایت کیا ہے اس میں نظر ہے تو پس انہوں نے تو کبھی اسکو روایت ہی نہیں کیا۔۔۔
[الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة ج2ص460 مركز النعمان لللحوث يمن]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه کی تصریح
…
ابو الفضل احمد بن علي حجر العسقلانی(المتوفي 852ھ) رحمة الله علیه نے بعینہ امام امام شمس الدین الذھبی رحمة الله علیه کے کلام کو ذکر کیا جسکا ہم اوپر ترجمہ ذکر کرچکے ہیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں
قلت: هذه عبارته يريد أن الحديث الذي رُوي عن أويس في الإسناد إلى أويس نظر ولولا أن البخاري ذكر أُويسًا في الضعفاء لما ذكرته أصلا فإنه من أولياء الله الصادقين وما روى الرجل شيئًا فيضعف،أو يوثق من أجله.
[لسان الميزان ج2ص226 مؤسسة الأعلمي بيروت لبنان]
ثالثا:ھند بن ابی ھاله رضی الله عنه کو امام بخاری نے ضعیف نہیں کہا ہے بلکے آپکی سند سے مروی روایت کو ضعیف کہا ہے اسکی ايک وجہ یہ ہے کہ آپکی سند سے مروی بعض روایت غیر معروف ہیں اس وجہ سے امام بخاری رحمة الله عليه نے ان سے مروی اسناد پر ضعف کا حکم لگایا
چنانچہ امام حافظ يوسف بن عبد الرحمن جمال الدین مزی (المتوفي 742ھ)رحمة الله علیه فرماتے ہیں
وفي إسناد حديثه بعض من لا يعرف، وحديثه من أحسن ماروي فِي وصف حلية رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسَلَّمَ.
ان سے مروی احادیث کی بعض اسناد ایسی ہیں جو غیر معروف ہیں سب سے احسن حدیث جو ان سے روایت کی گئی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ کی حدیث ہے
[تهذيب الكمال في أسماء الرجال ج30ص 315 مؤسسة الرسالة بيروت]
امام حافظ ابو عبدالله مغلطائي بن قليج المصري الحنفي (المتوفي762ھ) رحمة الله علیه فرماتے ہیں
وقال أبو حاتم روى عنه قوم مجهولون، فما ذنب هند حتى أدخله البخاري في كتاب الضعفاء
امام ابوحاتم فرماتے ہیں
ان سے ایسی قوم نے روایت کیا جو مجھول ہیں اس میں ھند بن ابی ھالہ کی کوئی غلطی نہیں ہے کہ یہاں تک امام بخاری نے انکو ضعفاء میں داخل کردیا
[إكمال تهذيب الكمال ج12ص180 الفاروق الحدیثیة بيروت]
ان تمام تر تصریحات سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمة الله علیه نے ہرگز اویس قرنی رضی اللہ عنه اور ھند بن ابی ھاله صحابی رسول کو ضعیف نہیں کہا بلکے آپ سے مروی اسناد کو ضعیف کہا ہے چمن زمان صاحب کو چاہیے کہ اس افتراء سے رجوع کریں۔۔
اللہ تعالی ھند ابی ھاله رضی اللہ عنه اور خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنه کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے
گدائے در صحابہ و اہلبیت
ابومحمد وقار رضا القادری
6ربیع الاول 1443