تنخواہ اور علماء و مشائخ
*تنخواہ اور علماء و مشائخ*
آج کل لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ علماء کو دین سکھانے پر پیسے 💸 نہیں لینے چاہیں،
علماء دین کے نام پر دنیا بناتے ہیں،
علماء کو دنیا سے الگ رہنا چاہئے۔
اس پر حکیم الامت، مفسر شہیر حضرت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے معترضین کا جواب دیتے ہوئے سیرحاصل گفتگو فرمائی ہے۔
وہ گفتگو (اعتراض اور اس کا جواب) پیش خدمت ہے۔
اعتراض:
علماء کرام ، طلباء ، اور مشائخِ عظام کو چاہئے کہ
امام ابوحنیفہ اور حضور غوثِ پاک رضی اللّه تعالٰی عنہما کی طرح خود کمائیں اور مفت دینی خدمت کریں، نذر، نذرانہ، صدقہ، خیرات کو ذریعہ معاش نہ بنائیں، دین سے دنیا نہ کمائیں۔
جواب:
حضور غوثِ پاک و امام اعظم وغیرہما رضی اللّه تعالٰی عنہما کے سوا اور کتنے علماء و مشائخ ایسے گذرے جنہوں نے کسب معاش بھی کیا ہو اور تبلیغ دین بھی، کوئی نہیں۔
امام ابویوسف علیہ الرحمہ نے ہارون الرشید بادشاہ سے قضاء کی تنخواہ لی،
امام محمد علیہ الرحمہ نے مسلمانوں سے نذرانے قبول فرمائے۔
علاوہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللّه تعالٰی عنہ کے تمام خلفائے راشدین نے خلافت پر تنخواہ لی۔
افسوس ہے کہ دنیوی بادشاہوں کے معمولی نوکر شاہی خزانہ سے تنخواہیں لیں، مگر شہنشاہِ کونین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خدام علماء جو دین کو سنبھالے بیٹھے ہیں، وہ ایک پائی کے مستحق نہ ہوں۔
اسلامی بادشاہوں نے علماء کی بڑی خدمتیں کیں۔
علماءِ نیشاپوری جو مدرسہ نظامیہ بغداد کے مدرس اول تھے، نظام الملک نے ان کی تنخواہ ایک لاکھ درہم ماہوار مقرر کی تھی،
اس مدرسہ کے طالبِ علم حضور غوثِ پاک، امام غزالی، شیخ سعدی شیرازی ہیں، دیکھو مناقب غوثِ اعظم۔
اس مدرسہ کا نام مدرسہ نظامیہ اور اس کے مقرر کردہ درس کا نام درس نظامی ہے، وہ آج تک پڑھا جاتا ہے۔
حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللّه علیہ نے جن علماء سے فتاویٰ عالمگیری لکھوایا، انہیں دو لاکھ روپے اور دو سو قرش سونا نذرانہ میں دیا۔
رب تعالٰی تو فرماتا ہے ایسے لوگوں کو دو اور مسلمان کہتے ہیں کہ مت دو،
کس کی مانیں رب تعالٰی کی یا ان کی۔
(تفسیرِ نعیمی، جلد3، ص136-137)
✍🏻مدینے پاک کا بھکاری
فقیر قادری نذر محمد نذیر صدیقی جامعی قادری کان پور