مذھب سیاست اور ہولی دیوالی

۔

ماضی میں اسلامی عقائد پر پختگی سُنّیت کی پہچان ہوا کرتی تھی ۔معذرت کے ساتھ آجکل سُنّیت کی پہچان چند مخصوص اعمال کی ترویج واشاعت کے ذریعے کرائ جارہی ہے ۔

۔

دین کی دعوت دینا، حکمت عملی اپنانا اچھی چیز ہے لیکن مُسَلّمہ اسلامی عقائد پر سمجھوتہ ہمیں قبول نہ تھی ،نہ ہے اور نہ رہے گی ۔

۔

ہر وہ ترقی، ہر وہ نیک عمل مردود ہے جو اسلام وکفر کا فرق ہی مٹا دے ۔آج کی جمھوری سیاست اسلام وکفر کے فرق کو مٹاتی جارہی ہے ۔ملک کے کثیر سیاست دان اور بڑی سیاسی پارٹیاں ہندوؤں کے ساتھ ہولی دیوالی سیلیبریٹ کرتے ہیں ۔بڑی سیاسی جماعتوں سے وابستہ بڑے لوگ سِکھوں کے گوردواوں کا چکر لگاتے ہیں، سکھوں کے مذھبی تہواروں کے دن اُنہی کے مذہبی لباس پہنتے ہیں ۔ایسے ہی ہولی کے دنوں اپنے اوپر رنگ ڈالتے ہیں، دیوالی میں بت کے آگے ماتھا ٹیکتے ہیں، ماتھے پر تِلک بھی لگاتے ہیں ۔

۔

سیاست دانوں کی دیکھا دیکھی بعض کالج اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس بھی کافروں کے ساتھ اُن کے مذھبی تہواروں میں شریک ہوتے ہیں، ڈاکٹرز، انجنیئرز، میڈیا سے وابستہ کئ سارے افراد بھی بہتی گنگا میں ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسلامی عقائد کے مطابق بت کی تعظیم واضح کفر ہے ۔مسلمانوں کا کافروں کے ساتھ ملکر اُن کے مذہبی تہوار سیلیبریٹ کرنا بھی کفر ہے ۔

۔

مقام حیرت ہے ہم انگشت بدنداں اُس وقت رہ جاتے ہیں جب حُسامُ الحرمین اور تمھیدالایمان شریف کے مندرجات کو ماننے والے حضرات بتوں کی تعظیم کرنے والے سیاست دانوں کو اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں ۔باوضو، باادب اُن کا نام لےکر تعارف کراتے ہیں اور پھر یہی تشہیری مواد تعظیمی الفاظ کے ساتھ سوشل مڈیا پر بھی اپ لوڈ کرتے ہیں ۔

۔

تبلیغ دین اچھی بات ہے ۔ہم حسن ظن کے طور پر یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ہمارے مذھبی مبلغین سیاست دانوں کو ایمان وکفر کا فرق بتاکر اُنہیں توبہ کی تلقین کرتے ہوں گے لیکن انداز سے لگ نہیں رہا کہ وہ ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہہ کر اُنہيں توبہ پر آمادہ کرتے ہوں گے ۔

۔

گزارش ہے تبلیغِ دین اور حکمت کی آڑ میں کالے گورے کا فرق مت مٹائیے سوشل میڈیا پر ہر ایرے غیرے سیاست دان کے ساتھ فوٹو سیشن کی تشہیری مواد اپ لوڈ مت کیجئے ۔

۔

سیدی اعلیٰ حضرت امام اھل سنت اور دیگر علمائے اھل سنت نے جن چاروں لوگوں پر فتویٰ لگایا اُس پورے فتویٰ شریف کا خلاصہ یہی ہے کہ ہر وہ جو شخص جو کلمہ گو ہونے کے باوجود کسی ضرورتِ دینی کا انکار کرے یا ضروتِ دینی کی نقیض یا ارتکاب کرے وہ مرتد ہے ۔چاہے وہ کسی جماعت کا روحانی پیشوا ہو یا سرکاری سیاستدان ،جاھل ہو یاکہ عالم ۔۔۔۔

۔

جیسے طواغیتِ اربعہ اور اُن کے پیروکاروں سے دور رہنا تقاضائے ایمان ہے ایسے ہی مرتد سیاست دانوں سے دور رہنا بھی تقائے ایمان ہے ۔

ابوحاتم

08/11/2021/