جماع،ہمبستری کے کچھ مسائل…………!!

کچھ لوگ حیاء کی حدیں پار کر جاتے ہیں اور کچھ لوگ انتہائی حیاء و شرم یا بڑائی کی وجہ سے جائز و بہتر لطف اندوزی بھی نہیں کرتے اور کبھی اس وجہ سے میاں بیوی میں محبت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے،چڑچڑا پن اور غصہ بار بار آتا ہے، گھریلوں پریشانیاں جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں یا عورت اپنی لطف اندوزی قربان کر دیتی ہے،قلت و اولاد پے اکتفاء کر لیتی ہے….اس لیے یہ تحریر سرعام پبلک کر رہا ہوں تاکہ ان سب مسائل کا تدارک ہو…بےحیائی سے بھی بچا جائے اور انتہائی شرمیلی پن سے بھی بچا جائے، کبھی کبھار یا وقتا فوقتا جائز لطف اندوزی کی جائے،عورت کو لطف اندوزی کرنے کا بھی موقعہ دیا جائے…کچھ لوگ جائز و بہتر لطف اندوزی کو دین سے الگ سمجھ کر کافروں انگریزوں فاسقوں کی عادت سمجھتے ہیں جبکہ جائز لطف اندوزی کی اجازت دین اسلام نے دی ہے…دین اسلام تو جائز دنیا و دین کا حسین امتزاج ہے،ہاں دنیا و لطف اندوزی میں غرق رہنا عبادات کم کرنا یا نہ کرنا ٹھیک نہیں،اسی طرح دین میں بےجا سختی تکلف بھی ٹھیک نہیں…جائز لطف اندوزی کو برا مت سمجھیے بلکہ نیت اچھی ہو تو ثواب ہے..لیھذا کبھی کبھار ایسی تحاریر لکھنا پھیلانا تو بیانِ حق ہے، بےحیائی پھیلانا نہیں….!!

.

قَالَ أَحَدُهُمْ : أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا. وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ. وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا. فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا ؟ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي

ترجمہ:

ان میں سے ایک صحابی نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو…! اللہ تعالیٰ کی قسم…! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو کبھی نہیں بھی رکھتا۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے

(بخاری حدیث5063)

دیکھا آپ نے کہ اسلام تو دین و عبادات و اچھی دنیا کا حسین امتزاج ہے

.

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا کہ اپنی عورت کے ساتھ ملاعبت و لطف اندوزی کی جائے

(دیکھیے ابن ماجہ حدیث1860)

.

دنیا کی رنگینیوں میں مگن مت ہو جاؤ(بلکہ دین عبادات و اچھی دنیا دونوں کو اپناؤ)(نسائی سنن کبری حدیث10652)

.

 

سوال:

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

علامہ صاحب کی بارگاہ میں سوال ہے کہ ڈاکٹر حمل کے پہلے تین ماہ عورتوں کو شوہر سے ہمبستری سے روک دیتے ہیں

ایسی صورت میں اگر شوہر بیوی کے پستان ران یا کسی بھی حصے پر اپنے عضو خاص کو رگڑ لگاکر فارغ ہوتا ہو تو ایسا کرنا کیسا ہے اور اس صورت میں غسل دونوں کو کرنا ہوگا یا ایک کو۔ان سب معاملات میں حکم شرعی کیا ہوگا؟

.

جواب:

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ

الظَّاهِرُ أَنَّهَا كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ مَا لَوْ أَنْزَلَ بِتَفْخِيذٍ أَوْ تَبْطِينٍ تَأَمَّلْ وَقَدَّمْنَا عَنْ الْمِعْرَاجِ فِي بَابِ مُفْسِدَاتِ الصَّوْمِ: يَجُوزُ أَنْ يَسْتَمْنِيَ بِيَدِ زَوْجَتِهِ أَوْ خَادِمَتِهِ

خلاصہ:

بیوی یا لونڈی اپنے مرد کے عضو تناسل سے کھیلے اور مرد فارغ ہوجائے تو یہ مکروہ تنزیہی ہے گناہ نہیں ، اسی طرح رانوں اور پیٹ(اور اسی طرح پستانوں)پے جماع کرنا مکروہ تنزیہی ہے گناہ نہیں، اسی طرح بیوی یا لونڈی کے ہاتھ سے مشت زنی کی جاءے تو جائز ہے(مکروہ تنزیہی ہے مگر گناہ نہیں)

(رد المحتار, المعروف فتاوی شامی 4/27)

یہ تو عام حالات کا حکم ہے، اگر مجبوری ہو مثلا بیوی حاملہ ہو اور مستند ڈاکٹر جماع سے روک دیں تو مکروہ تنزیہی بھی نہیں کہلائے گا..ان صورتوں میں غسل صرف مرد پے فرض ہوگا

نیز

بیوی یا لونڈی اپنے مرد کی شرمگاہ کو چھوئے کھیلے یا مرد انکی شرمگاہ کو چھوئے کھیلے تاکہ لطف ملے ، جماع کےلیے تیار ہوجائے مگر باہر فارغ نہ ہو بلکہ شرمگاہ میں فارغ ہوتو یہ شرمگاہ سے کھیلنا دیکھنا مکروہ نہیں بلکہ جائز و امیدِ ثواب ہے

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ الْأَوْلَى النَّظَرُ إلَى عَوْرَةِ زَوْجَتِهِ عِنْدَ الْجِمَاعِ لِيَكُونَ أَبْلَغَ فِي تَحْصِيلِ مَعْنَى اللَّذَّةِ وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ سَأَلْت الْإِمَامَ عَنْ الرَّجُلِ يَمَسُّ فَرْجَ أَمَتِهِ أَوْ هِيَ تَمَسُّ فَرْجَهُ لِيُحَرِّكَ آلَتَهُ أَلَيْسَ بِذَلِكَ بَأْسٌ قَالَ أَرْجُو أَنْ يَعْظُمَ الْأَجْرُ

خلاصہ:

عظیم صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ بہتر ہے کہ عورت مرد ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھیں(چھوئیں کھیلیں)تاکہ جماع میں زیادہ لذت ملے، امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے پوچھا کہ کیا مرد عورت ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چھو سکتے ہیں؟ ایک دوسرے کی شرمگاہ کھیل سکتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اس پے زیادہ اجر و ثواب ملے گا

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ,8/220)

.

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ نے امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے مذکورہ فتوی کو دلیل بنا کر فتوی دیا کہ شوہر اپنی عورت کے پستان منہ میں لے سکتا ہے بلکہ امید اجر ہے(دیکھیے فتاوی رضویہ جلد23 ص377) اس عمل سے عورت کو بھی بہت لذت و لطف ملتا ہے اس لیے وقتا فوقتا اس پر عمل کرنا چاہیے مگر ایامِ دودھ میں احتیاط کرنی چاہیے، دودھ کا ایک قطرہ بھی حلق سے نیچے اتارا تو گناہ ہے

.

فتاوی رضویہ میں ہے:

مرد کے لئے جائز ہے کہ اپنی بیوی کے سر سے لے کر پاؤں تک جیسے چاہے لطف اندوز ہو سوائے اس کے جس سے ﷲ تعالی نے(قرآن میں یا بزبانِ نبی حدیث پاک میں) منع فرمایا ہے،بوسہ(گالوں کا بوسہ، گردن کا بوسہ، اسی طرح جسم کے کسی صاف جگہ کا بوسہ، ہونٹوں کا بوسہ،ہونٹ اور زبان چوسنا) تو مسنون و مستحب ہے اور اگر بنیت صالحہ ہو تو باعث اجر و ثواب ہے۔ رہا پستان کو منہ میں دبانا، تو اس کا حکم بھی ایسا ہی ہے جب کہ بیوی دودھ والی نہ ہو اور اگر وہ دودھ والی ہے اور مرد اس بات کا لحاظ رکھے کہ دودھ کا کوئی قطرہ اس کے حلق میں داخل نہ ہونے پائے تو بھی حرج نہیں، اور اگر اس دودھ میں سے جان بوجھ کر کچھ پیا تو یہ پینا حرام ہے۔ اور اگر وہ زیادہ دودھ والی ہے اور اسے ڈر ہے کہ پستان منہ میں لے گا تودودھ حلق میں داخل ہوگا تو اس صورت میں پستان کو منہ میں لینا مکروہ ہے

(فتاوی رضویہ جلد12 ص267بحذف و شرح)

.

أَمَّا تَقْبِيل الزَّوْجِ فَمَ زَوْجَتِهِ وَالْعَكْسُ فَجَائِزٌ

میاں بیوی کا ایک دوسرے کےہونٹوں کا بوسہ جائز ہے

(الموسوعة الفقهية الكويتية ,32/211)

 

دلائل:

①قران،حدیث:

وكان من امر اهل الكتاب ان لا ياتوا النساء إلا على حرف وذلك استر ما تكون المراة، فكان هذا الحي من الانصار قد اخذوا بذلك من فعلهم، وكان هذا الحي من قريش يشرحون النساء شرحا منكرا ويتلذذون منهن مقبلات ومدبرات ومستلقيات، فلما قدم المهاجرون المدينة تزوج رجل منهم امراة من الانصار فذهب يصنع بها ذلك فانكرته عليه، وقالت: إنما كنا نؤتى على حرف، فاصنع ذلك وإلا فاجتنبني، حتى شري امرهما، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل: نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223، اي مقبلات ومدبرات ومستلقيات، يعني بذلك موضع الولد.

ترجمہ:

اہل کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ عورتوں سے ایک ہی طرف سے صحبت کرتے تھے، اس میں عورت کے لیے پردہ داری بھی زیادہ رہتی تھی، چنانچہ انصار نے بھی یہودیوں سے یہی طریقہ لے لیا اور قریش کے اس قبیلہ کا حال یہ تھا کہ وہ عورتوں کو طرح طرح سے ننگا کر دیتے تھے اور آگے سے، پیچھے سے، اور چت لٹا کر ہر طرح سے لطف اندوز ہوتے تھے، مہاجرین کی جب مدینہ میں آمد ہوئی تو ان میں سے ایک شخص نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی اور اس کے ساتھ وہی طریقہ اختیار کرنے لگا اس پر عورت نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں تو ایک ہی طریقہ رائج ہے، لہٰذا یا تو اس طرح کرو، ورنہ مجھ سے دور رہو، جب اس بات کا چرچا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر لگ گئی چنانچہ اللہ عزوجل نے یہ آیت «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» نازل فرمائی یعنی آگے سے پیچھے سے، اور چت لٹا کر(مکمل کپڑے اتار کر یا کچھ کپڑے اتار کر مختلف طریقوں سے لطف اندوز ہوکر)بچہ پیدا ہونے کی جگہ یعنی الٹا سیدھا آگے پیچھے اوپر نیچے دائیں بائیں کسی طرف لٹا کر بٹھا کر سو کر کوئی بھی طریقہ ہو جائز ہے بشرطیکہ جماع آگے کے مقام میں ہو

(ابوداود حدیث2164مشرحا ماخوذا)

.

②الحدیث:

احفظ عورتك إلا من زوجتك او ما ملكت يمينك،

ترجمہ:

سب سے پردہ کر مگر اپنی بیوی اور لونڈی کے پورا جسم(سوائے ایام حیض کے اور سوائے پچھلے مقام کے سب جگہ) سے استمتاع(لذت اٹھانا دیکھنا چھونا جماع کرنا)جائز ہے..(ترمذی حدیث2769)

.

مذکورہ آیت و احادیث سے یہ واضح ہے کہ مختلف طریقوں سے لطف اندوز ہونا جائز ہے، مکمل بےلباس ہونا بھی جائز ہے اگرچہ بہتر ہے کہ بڑی چادر کے اندر بےلباس ہوا جائے…ایک دوسرے کی شرم گاہ دیکھنے سے لطف زیادہ اتا ہو تو کبھی کبھار یا وقتا فوقتا ایسا کرسکتے ہیں، شرم گاہ کے ساتھ کھیلنے سے لطف زیادہ آتا ہو تو ایسا کرنا چاہیے ، اپنی عورت کے پستان چوسنے سے لطف آتا ہو تو ایسا کرنا چاہیے.. الٹا سیدھا ، دائیں بائیں ، اوپر نیچے ، اگے پیچھے ، بیٹھ کر ، سو کر ، لیٹ کر ، کھڑے ہوکر جماع کے مختلف طریقے جائز ہیں، یہ سب جائز لطف اندوزی کے طریقوں میں سے ہیں جائز ہیں…بس خیال رہے کہ پچھلے مقام میں جماع ناجائز ہے

.

جماع کے مختلف طریقوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت اوپر ہو اور مرد نیچے ہو اور عورت مرد کے اوپر ہوکر آگے پیچھے ہو محنت کرے جس طرح مرد کرتا ہے تو اس میں دونوں کو بہت لذت ملتی ہے اور اس طرح کرنے سے عورت زیادہ لطف اندوز ہوتی ہے اور عورت جلد فارغ ہو جاتی ہے..(پڑہیے ازدواجی خوشیاں ص89)کبھی کبھار یا وقتا فوقتا یہ طریقہ بھی اختیار کرنا چاہیے

اور

لطف اندوزی کے دیگر جائز طریقے بھی اپنانا چاہیے

تاکہ عورت لذت حاصل کرے مطمئین ہو، لطف و خوشی زیادہ ہو اور جگھڑے وغیرہ کم ہوں، ختم ہوں، محبت بڑھے

.

وہ جو ایک روایت ہے کہ شرمگاہ کی طرف دیکھنے سے بھولنے کی بیماری ہوتی ہے تو اس روایت کے متعلق محققین نے فرمایا ہے کہ وہ ضعیف یا من گھڑت ہے اور ضعیف و من گھڑت روایت سے حرام و مکروہ وغیرہ حکم شرعی ثابت نہیں کیا جاسکتا………!!

.

 

دلیل③

كُنَّا نَعْزِلُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:

ہم(صحابہ کرام) نبی پاک صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے عہد مبارک میں عزل(شرمگاہ کے باہر فارغ ہونا)کیا کرتے تھے(اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار نہ دیا)

(بخاری حدیث5207)

.

دلیل④:

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعْزَلَ عَنِ الْحُرَّةِ إِلَّا بِإِذْنِهَا

ترجمہ:

نبی پاک صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے بیوی کے ساتھ عزل سے منع کیا مگر یہ کہ اسکی اجازت سے عزل کیا جائے

(ابن ماجہ حدیث1928)

.

دلیل① اور دلیل④ سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنا جنسی پانی ضائع نہیں کرنا چاہیے، عورت کے اگلے مقام میں جماع کرنا چاہیے

اور

دلیل②کے اطلاق اور دلیل③کی صراحت سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے پورے جسم سے لطف اندوزی کی جاسکتی ہے، اپنا جنسی پانی ضائع کرنا جائز ہے لیھذا رانوں میں پستانوں میں جماع کرکے پانی ضائع کرنا، لطف اندوز ہونا جائز ہے

لیھذا

دونوں قسم کے دلائل پے عمل کرتے ہوئے علماء نے فرمایا کہ بلامقصد عام طور پر پانی ضائع کرنا ، رانوں میں، پستانوں میں جماع کرنا مکروہ تنزیہی ہے مگر گناہ نہیں اور اگر مقصد صحیح ہو مثلا حمل ٹہر جائے گا تو بچوں کی تربیت دیکھ بھال اچھے طریقے سے نہ کر پائیں گے یا عورت فالحال طبی لحاظ سے حمل کے لیے مناسب تیار نہیں یا حمل ہے اور اگلے مقام میں جماع سے تکلیف یا نقصان کا اندیشہ ہے تو ان صورتوں میں رانوں پستانوں وغیرہ میں جماع کرنا یا اپنی عورت کے ہاتھ سے مشت زنی کرنا مکروہ بھی نہ کہلائے گا

.

الحاصل:

جماع و لطف اندوزی کے مختلف طریقے جائز ہیں،بس خیال رہے کہ پچھلے مقام میں جماع جائز نہیں

الحدیث:

مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا

ترجمہ:لعنتی ہے وہ شخص جو اپنی عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرے..(ابوداود حدیث2162)

.

پچھلے مقام میں جماع گناہ ہے مگر اگر کر لیا تو اس سے نکاح نہیں ٹوٹتا، اسی طرح اپنی عورت کے پستان منہ میں لینے چوسنے سے دودھ منہ میں آجائے تو باہر تھوک دے کہ پینا حرام ہے مگر پی لیا تو اگرچہ گناہ ہے مگر نکاح نہیں ٹوٹے گا(دیکھیے بہار شریعت حصہ7 ص42 وغیرہ)

.

دلیل⑤قرآن و حدیث سے:

اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّهُ يُبَاحُ لِكُلٍّ مِنَ الزَّوْجَيْنِ النَّظَرُ إِلَى جَمِيعِ بَدَنِ صَاحِبِهِ بِدُونِ كَرَاهَةٍ سِوَى الْفَرْجِ وَالدُّبُرِ، سَوَاءٌ أَكَانَ النَّظَرُ بِشَهْوَةٍ أَمْ بِغَيْرِهَا، مَادَامَتِ الزَّوْجِيَّةُ قَائِمَةً بَيْنَهُمَا، وَاخْتَلَفُوا فِي حُكْمِ نَظَرِ الْوَاحِدِ مِنْهُمَا إِلَى فَرْجِ الآْخَرِ أَوْ دُبُرِهِ فَذَهَبَ الْحَنَفِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ فِي الْمَذْهَبِ إِلَى إِبَاحَةِ ذَلِكَ، وَأَنَّهُ يَحِل لِكُلٍّ مِنْهُمَا النَّظَرُ إِلَى جَمِيعِ بَدَنِ الآْخَرِ، وَلاَ يُسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ أَيُّ عُضْوٍ، وَاسْتَدَلُّوا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ… فَاسْتَثْنَى سُبْحَانَهُ مِنَ الأَْمْرِ بِحِفْظِ الْفُرُوجِ، الزَّوْجَاتِ وَالْمَمْلُوكَاتِ، وَيَدْخُل فِي ذَلِكَ الاِسْتِمْتَاعُ بِجَمِيعِ أَنْوَاعِهِ، وَلاَ خِلاَفَ فِي دُخُول الْمَسِّ وَالْوَطْءِ فِي هَذَا الاِسْتِثْنَاءِ، فَكَذَلِكَ النَّظَرُ مِنْ بَابِ أَوْلَى وَاسْتَدَلُّوا بِمَا وَرَدَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال: قُلْتُ: يَا رَسُول اللَّهِ، عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ؟ قَال: احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلاَّ مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ

خلاصہ:

سورہ المومنون آیت5,6 اور ترمذی حدیث2769 سے فقہاء احناف اور فقہاء مالکیہ نے دلیل پکڑی کہ مرد اپنی عورت اور عورت اپنے مرد کے سارے جسم و شرمگاہ کی طرف دیکھ سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں،مختلف جائز طریقوں سے لذت و لطف اندوزی حاصل کرسکتے ہیں(سوائے اس کے کہ پچھلے مقام میں جماع کرنا جائز نہیں کہ حدیث پاک میں اس عمل پے لعنت آئی ہے)

(الموسوعة الفقهية الكويتية ,40/363)

.

واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہﷺاعلم بالصواب

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574