وَفِىۡ ثَمُوۡدَ اِذۡ قِيۡلَ لَهُمۡ تَمَتَّعُوۡا حَتّٰى حِيۡنٍ ۞- سورۃ نمبر 51 الذاريات آیت نمبر 43
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَفِىۡ ثَمُوۡدَ اِذۡ قِيۡلَ لَهُمۡ تَمَتَّعُوۡا حَتّٰى حِيۡنٍ ۞
ترجمہ:
اور قوم ثمود میں (بھی عبرت انگیز نشانی ہے) جب ان سے کہا گیا کہ تم ایک عارضی مدت تک فائدہ اٹھا لو
تفسیر:
قوم ثمود کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور قوم ثمود میں (بھی عبرت انگیز نشانی ہے) جب ان سے کہا گیا کہ تم ایک عارضی مدت تک فائدہ اٹھالو۔ تو انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی تو ان کو ایک ہولناک کڑک نے پکڑ لیا اور وہ دیکھ رہے تھے۔ پس وہ نہ کھڑے ہوسکتے تھے اور نہ کسی سے مدد حاصل کرسکتے تھے۔ (الذریت : ٤٥۔ ٤٣ )
اور قوم ثمود میں بھی عبرت کی نشانیاں ہیں ‘ ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو اللہ کی عبادت اور توحید کا پیغام دے کر بھیجا گیا تھا ‘ اور ان کے مطالبہ پر ایک پتھر کی چٹان سے اونٹنی نکال کر حضرت صالح کی نبوت پر دلیل قائم کی گئی ‘ ان سے کہا گیا تھا کہ اس اونٹنی کا احترام کریں مگر انہوں نے اس کی کو نچیں کاٹ کر اس کو گرایا اور پھر اسکو قتل کردیا ‘ حضرت صالح نے ان کو عذاب کی وعید سنائی کہ تم تین دن اپنے گھروں میں گزار لو ‘ پھر تم کو عذاب سے ہلاک کردیا جائے گا ‘ تین دن کے بعد ان کو ایک کڑک نے آلیا اور وہ سب ہلاک کردیئے گئے۔ قرآن مجید میں ” صاعقۃ “ کا لفظ ہے ‘ اس کی متعدد تفسیریں ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی موت ہے ‘ اور ایک قول ہے : اس کا معنی ہے : مہلک عذاب۔ حسین بن واقد نے کہا : قرآن مجید میں جہاں بھی ” صاعقہ “ کا لفظ آیا ہے اس کا معنی عذاب ہے اور اس کا معنی کڑک بھی ہے ‘ جس قوت ان پر عذاب آیا وہ اس کو دیکھ رہے تھے اور وہ اس کے سامنے اٹھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ‘ نہ اس کو برداشت کرنے کی اور نہ اس کو اپے سے دور کرنے کی طاقت رکھتے تھے اور وہ اس کے سامنے اٹھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ‘ نہ اس کو برداشت کرنے کی اور نہ اس کو اپنے سے دور کرنے کی طاقت رکھتے تھے اور جس وقت وہ عذاب سے ہلاک ہو رہے تھے اس وقت وہ کسی سے مدد بھی حاصل نہیں کرسکتے تھے یعنی ان کا کوئی مددگار نہ تھا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات آیت نمبر 43