سوال.. کیا یا غوث المدد.. یا.. یافلاں المدد کہنا شرک ہے؟

 

جواب.. یہ وہابیہ کے نزدیک شرکیہ الفاظ ہیں… جبکہ ہمارے نزدیک درج ذیل تفصیل ہے

 

👈اگر خدا سمجھ کر یافلاں المدد کہا تو کفر و شرک ہے اور ایسا کوئی مسلمان بھی نہیں سوچ سکتا..

 

اور اگر بندہ خدا سمجھ کر یا فلاں المدد کہا تو دو صورتیں ہیں :

 

👈اگر بزرگان دین کے روحانی تجربات سے کسی فوت شدہ ہستی سے حصول مدد ثابت ہو تو حسب موقع پکارا جا سکتا ہے، جائز ہے حرام نہیں ہے. حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی پکارنے پر مدد فرمانا بزرگان دین اور عوام و خواص کے تجربات سے ثابت ہے. لیکن یہ عقیدہ بھی ساتھ ہی بار بار ذہنوں میں پختہ کرنا کروانا چاہیے کہ اولیاء کرام باذن خداوندی ہی سنتے اور مدد کرتے ہیں اور ان کے پاس یہ طاقت دنیا بھر کے لیے ہر آن نہیں ہوتی.

اعلی حضرت علیہ الرحمہ یہی چیز یاد کروانے کے لیے فرماتے ہیں :

یا خدا تجھ تک ہے سب کا منتہی

اولیاء کو اذن نصرت کیجئے

 

👈اگر بزرگوں کے روحانی تجربات سے ایسا ثابت نہ ہو تو پھر پکارنا کار عبث ہے، حرمت کا فتویٰ پھر بھی نہیں. البتہ ایسے کو جاہل و احمق ضرور کہا جائے گا اور منع بھی کیا جائے گا.

 

مذکورہ احکام وصال فرما جانے کے بعد بزرگوں کے لیے ہیں،کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ وصال کے بعد روح کے جسم سے آزاد ہو جانے کی وجہ سے صالحین کی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے.

 

👈رہ گئے زندہ صالحین تو ان کو علانیہ مدد کے لیے پکارنے میں کئی طرح کی خرابیاں ہیں، ہم واضح دیکھتے ہیں کہ وہ ساتھ کمرے میں ہونے والے معاملات تک سے بھی بے خبر ہوتے ہیں چہ جائے کہ ساری دنیا کے حالات سے با خبر ہوں اور داد رسی کریں.

اگر کسی بزرگ کے متعلقین کو ان کے بارے میں اس قسم کی بہت زیادہ خوش اعتقادی ہے تو وہ عوام میں برملا ان سے استغاثہ کرنے کی بجائے گوشہ تنہائی میں استغاثہ کریں. اور علانیہ استغاثے کر کے لوگوں میں تشویش نہ پھیلائیں.

 

👈اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے والد گرامی حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

*اگر کوئی جاہل کسی کامل کی نسبت اولیاء امت میں سے اعتقاد کرے کہ وہ ( غیر مستقل طور پر باعلام خدا ) سب زمین کا حال ہر وقت و ہر آن یکساں جانتا ہے اور جو اسے جس وقت جس جگہ سے پکارتا ہے تو فورا سن لیتا ہے……….. تو اس قدر عقیدہ سے مشرک نہ ہو گا. ہاں عوام کو اس عقیدہ سے روکنا اور اس کا بطلان ظاہر کرنا چاہیے، مگر لطف و نرمی خواہ زجر و توبیخ سے، نہ اس طرح کہ خواہ مخواہ مشرک کہا جائے. انتہی.*

( اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد، ص 45،46)

👈آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کسی بھی کامل (زندہ یا مردہ) کے لیے ہر آن سن لینے کی قوت کا اعتقاد رکھنے والے کو نہ صرف جاہل قرار دے رہے ہیں بلکہ اس کو بہر طور اس باطل خیال سے روکنے کا بھی ارشاد فرما رہے ہیں.

 

تحریر : عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور