أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاِنَّ لِلَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا ذَنُوۡبًا مِّثۡلَ ذَنُوۡبِ اَصۡحٰبِهِمۡ فَلَا يَسۡتَعۡجِلُوۡنِ ۞

ترجمہ:

پس بیشک ظالموں کے لیے (عذاب کا ایسا) حصہ ہے ‘ جیسے (عذاب کا) حصہ ان کے اصحاب کا ہے سبو وہ (عذاب کی) جلدی نہ کریں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس بیشک ظالموں کے لیے (عذاب کا ایسا) حصہ ہے جیسے (عذاب کا) حصہ ان کے اصحاب کا ہے سو وہ ( عذاب کی) جلدی نہ کریں۔ پس کفار کے لیے اس دن سے عذاب ہوگا جس دن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (الذریت : ٦٠۔ ٥٩ )

” ذنوب “ کا معنی

اس آیت کا معنی ہے : کفار مکہ کے لیے بھی عذاب کا ایسا حصہ ہے جیسے پچھلی امتوں کے کافروں کے لیے عذاب کا حصہ تھا۔

اس آیت میں ” ذنوب “ کا لفظ ہے۔ علامہ راغب اصفہانی متوفی ٢ ٥٠ ھ نے اس کا معنی لکھا ہے :

” ذنب الدابۃ “ اس کا معنی ہے : سواری کی دم ‘ اور اس کو متاخر اور رذیل چیز سے تعبیر کیا جاتا ہے ‘ کہا جاتا ہے :” ھم اذناب القوم “ وہ قوم کے رذیل لوگ ہیں اور ” ذنوب “ اس گھوڑے کو کہتے ہیں : جس کی دم لمبی ہو ‘ جس ڈول کی دم ہو اس کو بھی ’ ذنوب “ کہتے ہیں اور ” ذنوب “ سے حصہ کا بھی استعارہ کیا جاتا ہے جیسے اس لفظ سے ڈول کا استعارہ کیا جاتا ہے ‘ جیسے الذریت : ٥٩ میں ہے (ذنوب کا معنی حصہ ہے) ‘ اصل میں ” ٓذنب “ کا معنی ہے : کسی چیز کی دم کو پکڑنا اور اس کا استعمال ہر اس فعل میں کیا جاتا ہے جس کا انجام نقصان دہ ہو ‘ اسی وجہ سے برے انجام کو ” ذنب “ کہتے ہیں اور چونکہ گناہ کا انجام بھی بُرا ہوتا ہے اس لیے گناہ کو بھی ذنب کہتے ہیں اور ” ذنب “ کی جمع ” ذنوب “ ہے۔

فاخذھم اللہ بذنوبہم ط (آل عمران : ١١) پس اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا۔ (المفردات ج ١ ص ٤٠‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)

” ذنب “ اور ” ذنب “ کا لفظی اور معنوی فرق

علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ‘ ابن منظور متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :

” ذنب “ کا معنی ہے : اثم ‘ جرم اور معصیت اور اس کی جمع ” ذنوب “ ہے ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں کہا :” ولہم علی ذنب “ (الشعراء ١٤) اس سے مراد آل فرعون کے اس شخص کا قتل ہے جس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے گھونسا مارا تھا۔

اور ” ذنب “ معروف ہے (یعنی دم) اور اس کی جمع ” اذناب “ ہے ” ذنب الفرس “ گھوڑے کی دم کی شکل کا ایک ستارہ ہے ” ذنب الثعلب “ لومڑی کی شکل کی ایک جڑی بوٹی ہے۔ (لسان العرب ج ٦ ص ٤٥‘ دارصادر ‘ بیروت ‘ ٢٠٠٣ ئ)

خلاصہ یہ ہے کہ ” ذنب “ (ن پر جزم) اور ” ذنب “ (ن پر زبر) میں فرق ہے ‘” ذنب “ کا معنی گناہ ہے اور اس کی جمع ” ذنوب “ ہے اور ” ذنب “ کا معنی دم یا پچھلا حصہ ہے اور اس کی جمع ” اذناب “ ہے۔

علامہ اسماعیل بن حماد الجوہری متوفی ٣٩٨ ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے ‘ وہ لکھتے ہیں :

” ذنب “ کا معنی ہے : اثم اور اس کی جمع ” نوب “ اور جمع الجمع ” ذنوبات “ ہے اور ” ذنب “ میں اگر نون پر حرکت ہو تو اس کا معنی پچھلا حصہ اور نچلے درجے کے لوگ ہیں اور اسکی جمع ” اذناب “ ہے۔ (القاموس ص ٨٥“ مئو سستہ الرسالۃ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٥ ھ)

علامہ محمد بن محمد زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ ” قاموس “ کی شرح میں لکھتے ہیں :

” ذنب “ کا معنی ہے : جرم اور اثم ‘ اور جب ” ذنب “ نون کی زبر سے ہو تو اس کا معنی معروف ہے یعنی دم یا کسی چیز کا پچھلا حصہ ‘ اور شہاب الدین خفا جی نے ” عنایۃ القاضی “ میں لکھا ہے کہ ” ذنب “ (نون کی جزم) ذنب (نون کی زبر) سے ماخوذ ہے ‘ جس کا معنی نچلا حصہ ہے اور ”’ شفائ “ میں مذکور ہے کہ یہ گھٹیا ‘ خسیس اور رذیل چیز کے معنی سے ماخوذ ہے۔ علامہ خفا جی نے کہا ہے کہ کسی لفظ کا موخوذ ہونا اشتقاق سے زیادہ وسیع دائرہ رکھتا ہے۔ (تاج العروس ج ١ ص ٢٥٤‘ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ مطبعہ خیر یہ ‘ مصر ١٣٠٦ ھ)

معلوف لوئیس متوفی ١٨٦٧ ء لکھتے ہیں :

” ذنب “ کا معنی حیوان کا پچھلا حصہ ہے ‘ جو معروف ہے ‘ اس کی جمع ” اذناب “ ہے اور ” ذنب “ کا معنی جرم ہے اور اس کی جمع ” ذنوب “ ہے۔ (المنجد ج ١ ص ٢٣٩‘ کتب خانہ ملی ‘ ایران ’ ١٣٧٩ ھ)

امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی متوفی ١٧٥ ھ لکھتے ہیں :

” الذنب “ کی جمع ” اذناب “ ہے اور ” الذنب “ کا معنی ہے : اثم اور معصیت اور اسکی جمع ” ذنوب “ ہے اور ” مذنوب “ کا معنی ہے : پانی کا بھرا ہوا ڈول اور ہر چیز کا ایک حصہ۔ (کتاب العین ج ١ ص ٦٢٩‘ مطبوعہ باقری ‘ ایران ‘ ١٤١٤ ھ)

خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ لغت کے نزدیک ” ذنب “ (نون کی جزم) اور ” ذنب “ (نون پر زبر) دو الگ الگ لفظ ہیں اور یہ کہنا کہ ” ذنب “ ” ذنب “ سے ماخوذ ہے ‘ محض بعض متاخرین کی نکتہ آفرینی ہے۔

اس کے بعد فرمایا : پس وہ (عذاب کی) جلدی نہ کریں۔

کیونکہ کفار ٩ مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہتے تھے :

فاتنا بما تعدنآ ان کنت من الصدیقین۔ (الاعراف : ٧٠) اے محمد ! آپ ہمارے پاس وہ عذاب لے آئیں جس سے آپ ہم کو ڈرا رہے ہیں ‘ اگر آپ سچوں میں سے ہیں۔

پھر غزوئہ بدر کے دن ان پر وہ دنیاوی عذاب آگیا ‘ جس سے ان کو ڈرایا گیا تھا ان کے لشکر کے ستر افراد قتل کیے گئے اور ستر افراد قید کیے گئے اور اللہ تعالیٰ نے بہت جلد ان سے انتقام لے لیا اور ان میں سے جو کفر پر مرگئے ان کو دوزخ میں دائمی عذاب دیا جائے گا اور انکے لیے ذلت اور رسوائی ہوگی۔

معصیت کا سبب دنیا سے محبت اور آخرت سے غفلت ہے

الذریت : ٦٠ میں فرمایا : پس کفار کے لیے اس دن سے عذاب ہوگا جسدن کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔

ان کو جس دن کے عذاب سیڈرایا گیا تھا وہ یوم بدر کا عذاب تھا اور ایک قول یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن کا عذاب تھا ‘ کیونکہ قیامت آنے والی ہے اور جو چیز آنے والی ہوتی ہے وہ قریب ہوتی ہے۔

پس عقل والوں پر لازم ہے کہ وہ توبہ کرنے میں اور اللہ سبحانہ ‘ کی طرف رجوع کرنے میں جلدی کریں ‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کریں کہ وہ مصیت سے آلودہ ہوں ‘ کیونکہ موت کا کوئی پتا نہیں ہے کہ وہ کب آجائے۔

جو لوگ گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں وہ غور کریں تو ان پر منکشف ہوگا کہ ان کے گناہوں کا سبب دنیا کی زیب وزینت سے ٹوٹ کر محبت کرنا ہے اور آخرت سے غافل ہونا ہے ‘ پس ضروری ہے کہ وہ اپنے دلوں سے دنیا کی محبت کا زنگ اتار دیں۔

سورت الذریت کا اختتام

الحمد للہ رب العلمین ! آج ٣ رجب ١٤٢٥ ھ /٢٠ اگست ٢٠٠٤ ء بہ روز جمعہ سورة الذریت کی تفسیر مکمل ہوگئی ‘ اس کی ابتداء ٢٨ جو لائی ٢٠٠٤ ء کو کی تھی اور اس طرح تئیس (٢٣) دنوں میں اس سورت کی تفسیر مکمل ہوگئی۔

بیماریوں کا میرے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے ‘ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور اس کی تفسیر مکمل کرادی ‘ الہٰ العلمین ! جس طرح آپ نے محض اپنے کرم سے یہاں تک پہنچا دیا ہے ‘ باقی تفسیر کو بھی مکمل کرادیں ‘ اور محض اپنے فضل سے میری ‘ میرے والدین ‘ میرے اساتذہ ‘ میرے احباب اور تامذہ کی مغفرت فرما دیں ‘ خصوصاً اس تفسیر کے ناشر ‘ کمپوزر ‘ بائینڈر اور دیگر معاونین کی مغفرت فرمائیں ‘ ہم سب کو صحت اور عافیت کے ساتھ ایمان پر قائم اور اسلام کے احکام پر عامل رکھیں اور دنیا اور آخرت کے مصائب ‘ عذاب اور رسوائی سے محفوظ اور مامون رکھیں اور قیامت کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے شاد کام فرمائیں اور آپ کے وسیلہ سے جنت الفردوس کی نعمتیں اور اپنا دیار عطا فرمائیں۔

واخردعونا ان الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین امام المرسلین شفیع المذنبین وعلیٰ الہ و اصحابہ وازواجہ وذریاتہ و علماء ملتہ واولیاء ملتہ وامتہ اجمعین۔

غلام رسول سعیدی غفرلہ ‘

خادم الحدیث دارالعلوم نعیمیہ ‘ ١٥ فیڈرل بی ایریا ‘ کراچی۔ ٣٨

القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات آیت نمبر 59