أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالطُّوۡرِۙ ۞

ترجمہ:

اور (پہاڑ) طور کی قسم

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (پہاڑ) طور کی قسم۔ اور اس کتاب کی قسم جو لکھی ہوئی ہے۔ جو باریک کھال کے کھلے ہوئے ورق میں ہے۔ اور بیت المعمور کی قسم۔ اور بلند چھت کی قسم۔ اور جوش مارتے ہوئے سمندر کی قسم۔ بیشک آپ کے رب کا عذاب ضرور واقع ہوگا۔ اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ (الطور : ٨۔ ١)

” الطور “ کا معنی اور مصداق

علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ طور کے معنی میں لکھتے ہیں :

(١) مجاہد نے کہا : سریان یزبان میں طور پہاڑ کا نام ہے۔ مقاتل نے کہا : یہ طور زبیر ہے۔

(٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر سبزہ پیدا ہو اور جس پر سبزہ پیدا نہ ہو اس پہاڑ کو طور نہیں کہتے۔ پھر جس پہاڑ طور کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی، اس کے مصداق میں تین قول ہیں :

(١) سدی نے کہا : یہ طور سیناء ہے (٢) ابن قتیبہ نے کہا : یہ وہ پہاڑ ہے جس پر اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تھا (٣) کلبی نے کہا : یہ ایک غیر معروف پہاڑ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی قمس اس لئے کھائی ہے کہ پہاڑوں میں جو اللہ تعالیٰ نے نشانیاں رکھی ہیں ان کو یاد دلایا جائے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص 376-377، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ ابو اسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی 427 ھ اس کی فسیر میں لکھتے ہیں :

ہر پہاڑ طور ہے لیکن اللہ سبحانہ کی مراد یہا پہاڑ طور سے وہ پہاڑ طور ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ارض مقدسہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا تھا، یہ پہاڑ مدین میں ہے اور اس کا نام زبیر ہے اور مقاتل بن حیان نے کہا : یہ دو پہاڑ ہیں، ایک کو طورتینا کہا جاتا ہے اور دوسرے کو طورز تیونا کہا جاتا ہے کیونکہ ایک پہاڑ تین (انجیر) اگاتا ہے اور دوسرا پہاڑ زیتون اگاتا ہے۔ (الکشف والبیان ج ٩ ص ٣٢١ دارایحاء التراث العربی، بیروت، ٢٢٤١ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ لکھتے ہیں :

جمہور عرب کے نزدیک ہر پہاڑ کو الطور کہتے ہیں، اس سے مراد طور سینین ہے، جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام فرمایا تھا، اس کو طور سینا بھی کہتے ہیں، اس نام سے جو پہاڑ مشہور ہے وہ مصر میں میدان تیہ کے قریب ہے۔

ابوحیان اندلسی نے سورة التین کی تفسیر میں کہا ہے کہ طور سینا شام میں ایک پہاڑ ہے اور یہ وہی پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تھا۔ امام راغب نے نقل کیا ہے کہ یہ پہاڑ تمام روئے زمین کو محیط ہے اور یہ میرے نزدیک صحیح نہیں ہے ابو حیان کی تحقیق یہ ہے کہ یہ غیر معروف پہاڑ ہے اور میرا اعتماد اس پر ہے کہ یہ پہاڑ مصر میں ہے، اور اسی پہاڑ پر اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تھا۔ امام راغب نے نقل کیا ہے کہ یہ پہاڑ تمام روئے زمین کو محیط ہے اور یہ میرے نزدیک صحیح نہیں ہے اور ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ یہ جنت کا ایک پہاڑ ہے اور میرے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں ہے، ابوحیان کی تحقیق یہ ہے کہ یہ غیر معروف پہاڑ ہے اور میرا اعتماد اس پر ہے کہ یہ پہاڑ مصر میں ہے، اور اسی پہاڑ پر اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تھا۔ (روح المعانی جز 27 ص 41-42 دارالفکر، بیروت، 1417 ھ)

علامہ راغب اصفہانی نے مطلقاً یہ نہیں لکھا کہ طور وہ پہاڑ ہے جو تمام روئے زمین کو محیط ہے، جیسا کہ علامہ آلوسی نے لکھا ہے، بلکہ انہوں نے طور کے متعلق تین قول نقل کئے ہیں، پہلا قول یہ ہے کہ طور ایک مخصوص پہاڑ کا نام ہے، پھر لکھا ہے : اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ہر پہاڑ کا نام ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ پہاڑ تمام روئے زمین کو محیط ہے۔ (المفردات ج ٢ ص 403 مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1418 ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 1