وَ السَّمَآءَ بَنَيۡنٰهَا بِاَيۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 51 الذاريات آیت نمبر 47
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ السَّمَآءَ بَنَيۡنٰهَا بِاَيۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے آسمان کو (اپنی) قوت سے بنایا اور بیشک ہم ضرور وسیع بنانے پر قدرت رکھتے ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے آسمان کو (اپنی) قوت سے بنایا ‘ اور بیشک ہم ضرور وسیع بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اور زمین کو ہم نے فرش بنایا پس ہم کیسا اچھا فرش بنانے والے ہیں۔ اور ہم نے ہر چیز سے جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ (الذریت : ٤٩۔ ٤٧ )
” اید “ کا معنی
اس آیت میں ” اید “ کا لفظ ہے ‘ اس کا معنی قوت اور قدرت ہے یعنی ہم نے آسمان کو اپنی قوت اور قدرت سے بنایا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” اید “ ’ ید “ کی جمع ہو اور اس کا معنی ہو : ہم نے آسمان کو (اپنے) ہاتھوں سے بنایا اور اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھوں کے ثبوت میں دو مذہب ہیں ‘ ایک مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہیں اور وہ مخلوق کے ہاتھوں کی مثل نہیں ہیں ‘ اللہ تعالیٰ ہی کو علم ہے کہ اس کے ہاتھوں کی کیا کیفیت ہے ‘ یہ ائمہ اربعہ اور مقتدمینکا مذہب ہے ‘ اور متاخرین نے جب دیکھا کہ ان الفاظ کی وجہ سیمخالفین اسلام ‘ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جسمانی اعضاء ہیں اور جسمانی اعضاء کے ثبوت سے اللہ تعالیٰ کا حادث ہونا لازم آتا ہے تو انہوں نے ان الفاظ کی تاویل کی اور کہا : ہاتھوں سے مراد اس کی قدرت ‘ اس کی قوت اور اس کا اقتدار ہے۔
اس آیت کا معنی ہے : ہم نے آسمان کو اپنی قوت سے بہت وسیع بنایا ہے اور بیشک ہم آسمان کو اس سے بھی زیادہ وسیع بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اور اس کا ایک معنی یہ ہے کہ بیشک ہم اپنی مخلوق کے لیے رزق میں وسعت کرنے والے ہیں یا ہم آسمان سے بارش نازل کرکے رزق میں وسعت کرنے والے ہیں۔
اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جو آیات ذکر فرمائیں تھیں ان سے مقصود حیات بعد الموت اور حشر پر ثبوت فراہم کرنا تھا اور اس آیت میں بھی حشر کے ثبوت پر دلیل ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے پہلی بار آسمان کو بنایا ہے تو وہ دوسری بار آسمان کو کیوں نہیں بنا سکتا ؟ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے :
اولیس الذی خلق السموت والارض بقدر علی ان یخلق مثلہم ط۔ (یس : ٨١) جس نے آسمانوں اور زمینوں کو بنایا ہے کہ کیا وہ دوبارہ انکی مثل بنانے پر قادر نہیں ہے۔
آسمانوں کی بناء کو متعدد بار ذکر کرنے کی حکمت
اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کے بنانے کا متعدد بار ذکر فرمایا ہے ‘ مثلا فرمایا : والسمآء وما بنھا۔ (الشمس : ٥) ” ام السمآء ط بنھا “
(النزعت : ٢٧) ” جعل لکم الارض قرارا والسمآء بنآئ “ (الغافر : ٦٤) ” بنائ “ کا معنی ہے : عمارت یا کسی چیز کو تعمیر کرنا۔
امام رازی فرماتے ہیں : اس کی وجہ یہ ہے کہ آسمان کی بناء (عمارت) قیامت تک قائم رہے گی ‘ اس کی کوئی چیز ساقط ہوگی نہ اس کا کوئی جز معدوم ہوگا ‘ اس کے برخلاف زمین میں تغیر اور تبدل ہوتا رہتا ہے جیسا کہ فرش (بستر) کو کبھی لپیٹ دیا جاتا ہے اور کبھی پھیلادیا جاتا ہے اور اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے اور آسمان اس چھت کی طرح ہے جو محکم اور ثابت رہتی ہیجیسا کہ اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے :
وبنینا فوقکم سبعا شدادا۔ (النبا : ١٢) اور ہم نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے۔
اور رہی زمین تو اس کا بعض حصہ سمندر بن جاتا ہے اور بعد میں وہ پھر خشکی کا ٹکڑا بن جاتا ہے اور تم دیکھتے ہو کہ آسمان انسانوں کے سروں کے اوپر مضبوط گنبد کی طرح بنا ہوا ہے اور زمین وسیع سطح کی طرح پھیلی ہوئی ہے اور ” بنائ “ کا لفظ آسمان کے لائق ہے جس کو بلندی پر بنایا گیا ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :
رفع سمکھا فسوھا۔ (النزعت : ٢٨) اللہ نے آسمان کی بلندی اونچی کی پھر اس کو ہم وار بنایا۔
بعض حکماء نے کہا ہے کہ آسمان روحوں کا مسکن ہے اور زمین اعمال کی جگہ ہے اور مسکن اس کے زیادہ لائق ہے کہ اس کی کوئی بناء ہو۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات آیت نمبر 47