فَلۡيَاۡتُوۡا بِحَدِيۡثٍ مِّثۡلِهٖۤ اِنۡ كَانُوۡا صٰدِقِيۡنَؕ ۞ – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 34
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلۡيَاۡتُوۡا بِحَدِيۡثٍ مِّثۡلِهٖۤ اِنۡ كَانُوۡا صٰدِقِيۡنَؕ ۞
ترجمہ:
اگر وہ سچے ہیں تو اس قرآن سے ایسی کوئی بات ( آیت) بنا کرلے آئیں
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے ثبوت میں قرآن مجید میں اٹھارہ ہزار سے زیادہ معجزات ہیں
الطور : ٣٤ میں فرمایا : اگر وہ سچے ہیں تو وہ اس قرآن ایسی کوئی بات ( آیت) بنا کرلے آئیں۔
یعنی اگر تمہارے زعم کے مطابق ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر ہیں تو تمہارے اندر بھی بڑے بڑے شعراء اور بلغاء اور بہت زیرک کاہن موجود ہیں، جو فی البدیہہ بڑے بڑے خطبے دیتے ہیں اور قصائد کہتے ہیں سو تم بھی اس قرآن مجید کی مثل کوئی بات یا کوئی آیت لے کر آجائو، یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی تھی جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی تھی اور آپ بہ کثرت معجزات پیش کرتے تھے جن کا کفار اور مشرکین خود مشاہدہ کرتے تو چاہیے یہ تھا کہ وہ بعد میں آنے والوں لوگوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات اور صداقت کو بیان کرتے، اس کے برعکس انہوں نے آپ کی تکذیب کی اور حق کو ماننے کے بجائے اس کا انکار کیا۔
بعض علماء نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے : تم اس قرآن کی مثل کوئی بات یا آیت لے آئو، تو یہ امر تعجیز کے لیے ہے، یعنی اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ان کو یہ حکم دیا ہے کہ تم ضرور قرآن مجید کی مثل کوئی بات لے آئو، کیونکہ وہ اس کی مثل کوئی چیز لا ہی نہیں سکتے، اس لیے اس آیت کا مقصد ان کے عجز کو ظاہر کرتا ہے۔ امام رازی نے اس سے اختلاف کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم ان کے عجز کو ظاہر کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ ان کی تکذیب کے لیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً یہ نہیں فرمایا کہ اس کی مثل کوئی آیت لائو، بلکہ فرمایا : اگر تم سچے ہو تو اس کی مثل کوئی بات لے کر آئو، اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت سے مقصود ان کے کذب کو ظاہر کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ وہ قرآن مجید کو شعر و شاعری قرار دینے کے دعویٰ میں جھوٹے ہیں اور قرآن مجید میں جو حکم کفار کے عجز کو ظاہر کرنے کے لیے دیا گیا ہے اس کی مثال یہ آیت ہے :
فَاِنَّ اللہ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَر َط (البقرہ : ٢٥٨ )
بے شک اللہ سورج کو مشرق کی جانب سے نکالتا ہے تو اس کو مغرب کی جہت سے نکال کر دکھا تو اس کافر کے ہوش اڑ گئے۔
ہم کئی بار بیان کرچکے ہیں کہ قرآن مجیدمعجز ہے، اس کی کسی ایک سورت یا کسی ایک بات کی مثل لانے کا چیلنج دیا گیا، اسلام کے مخالفین دنیا میں بہت زیادہ ہیں اور علوم و فنون میں بھی دن بہ دن ترقی ہو رہی ہے، اس کے باوجود کو بڑے بڑے سے بڑا مخالف آج تک قرآن مجید کی کسی سورت بلکہ کسی آیت کی بھی مثل نہیں لاسکا، اسلام کو جھٹلانے کے لیے اگر وہ ایسا کرسکتے تو ضرور کرلیتے اور جب اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ایسا نہ کرسکے تو معلوم ہوا کہ قرآن اپنے بےنظیر ہونے کے دعویٰ میں سچا ہے اور یہ جھوٹے ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ :
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ۔ (الحجر : ٩)
بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
یعنی ہم قرآن مجید کی حفاظت کرنے والے ہیں کہ اس میں سے کوئی چیز کم نہیں ہوگی اور چودہ سو سال گزر چکے ہیں، قرآن مجید سے آج تک کوئی آیت کم نہیں ہوئی اور یہ قرآن مجید کا دوسرا معجزہ ہے :
لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖط تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ۔ (حم السجدہ : ٤٢ )
قرآن مجید میں باطل (غیر قرآن) نہ سامنے سے آسکتا یہ نہ پیچھے سے یہ ( قرآن) بےحد حکمت والے اور بہت کمالات والے کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔
یعنی قرآن مجید میں کسی غیر قرآن الفاظ کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا اور چودہ سال گزر چکے ہیں آج تک قرآن مجید میں کسی لفظ کا اضافہ نہیں ہوسکا اور یہ قرآن مجید کا تیسرا معجزہ ہے۔ بلکہ قرآن مجید کی چھ ہزار سے زیادہ آیات ہیں اور ہر آیت میں تین معجزے ہیں، نہ کسی آیت کی مثل کوئی بناسکتا ہے، نہ کسی آیت سے کوئی کمی کی جاسکتی ہے، نہ کسی آیت میں کوئی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ایک قرآن مجید میں اٹھارہ ہزار سے زیادہ معجزات ہیں، دیگر انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات ان کے ساتھ جاتے رہے اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت اور آپ کی شریعت کا چونکہ قیامت تک ماننا ضروری ہے اس لیے آپ کے معجزات بھی قیامت تک قائم اور ثابت ہیں، نیز اگر کسی یہودی یا عیسائی کو حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کی نبوت اور ” تورات “ اور ” انجیل “ میں شک ہوجائے تو اس کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ان کتابوں میں تحریف ہوچکی ہے اور ان کی اصل زبان میں بھی ان کی کتابیں موجود نہیں کیونکہ یہ کتابیں عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھیں اور عبرانی زبان اب دنیا میں موجود نہیں رہی اور جب ان کتابوں کا خود اپنا وجود ثابت نہیں ہے تو ان کتابوں سے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے دنیا میں مبعوث ہونے اور ان کی نبوت اور رسالت کب ثابت ہوسکتی ہے ؟ اور اگر خدانخواستہ کسی مسلمان کو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور آپ کی بعثت میں شک ہوجائے تو اس کے ازالہ کے لیے قرآن مجید میں اٹھارہ ہزار سے زائد دلائل اور معجزات موجود ہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 34