أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ تَاۡمُرُهُمۡ اَحۡلَامُهُمۡ بِهٰذَآ‌ اَمۡ هُمۡ قَوۡمٌ طَاغُوۡنَ‌ۚ ۞

ترجمہ:

آیا ان کی عقلیں یہ حکم دے رہیں ہیں یا وہ سرکش لوگ ہیں

” احلام “ کا لغوی اور عرفی معنی

الطور : ٣٢ میں فرمایا : آیا ان کی عقلیں یہ حکم دے رہی ہیں یا وہ سرکش لوگ ہیں۔

اس آیت میں ” احلام “ کا لفظ ہے، یہ ” حلم “ کی جمع ہے۔ امام راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ اس کے معنی لکھتے ہیں :

جب انسان کا نفس غضب کے وقت جوش میں آئے اس وقت غصہ کو ضبط کرنے اور نفس کو کنٹرول میں رکھنے کو ” حلم “ کہتے ہیں اور اس کی جمع ” احلام “ ہے قرآن مجید میں ہے :

ام تامر اخلامہم (الطور : ٣٢) یا ان کی عقلیں یہ حکم دے رہی ہیں۔

کہا گیا ہے کہ ” احلام “ کا معنی عقول ہے لیکن اس کی توجیہ یہ ہے کہ حلم کا سبب عقل ہے اور عقل والے غصہ کے وقت عقل سے کام لیتے ہیں سو اس آیت میں ذکر مسبب کا ہے اور اس سے ارادہ سبب کا کیا ہے یعنی عقل کا، اس اعتبار سے ” احلام “ کا معنی عقول ہے۔ ( المفردات ج ١ ص ١٧١، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ ” احلام “ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھے ہیں :

” احلام “” حلم “ کی جمع ہے اور اس کا معنی عقل ہے ارض بھی انسان کو ضبط اور کنٹرول میں رکھتی ہے، لہٰذا عاقل اس بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا اور حلم بھی عقل کے آثار سے ہے اور حلم انسان کے وقار اور اس کے ثبات کے آثار سے ہے، نیز عقل کا معنی منع کرنا ہے، اسی وجہ سے دیات کو عقول کہا جاتا ہے کیونکہ دیت انسان کو ایسی جارحیت کے ارتکاب سے روکتی ہے اور منع کرتی ہے جس کے ارتکاب کے بعد انسان کو بعد میں تاوان ادا کرنا پڑے اور اس میں ایک لطیف معنی ہے اور وہ یہ ہے کہ حلم اصل لغت میں اس خواب کو کہتے ہیں جو سونے والا دیکھتا ہے پھر اس کو انزل ہوجاتا ہے اور اس پر غسل لازم آتا ہے اور یہ بلوغ کا سبب ہے اور اسی وقت انسان مکلف ہوتا ہے اور گویا کہ اللہ تعالیٰ اپنی لطیف حکمت سے اس کی شہوت کو عقل کے ساتھ مقرون کردیتا ہے اور جب اس کی شہوت کا ظہور ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عقل کو کامل کردیتا ہے سو عقل کی طرف حلم سے اشارہ کیا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ عقل کامل انسان کو برے کاموں سے ڈرانے والی ہے اور عقل ہی کی وجہ سے انسان مکلف ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢١٤۔ ٢١٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ قرطبی کی یہ تحقیق کہ کفار کی عقلیں نہیں ہیں اور اس پر مصنف کا تبصرہ

علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

ایک قول یہ ہے کہ ” احلمھم “ سے مراد ان کے اذہان ہیں کیونکہ کافر کو عقل نہیں دی جاتی، اس لیے کہ اگر اس کی عقل ہوتی تو وہ ایمان لے آتا، کافر کو صرف ذہن دیا جاتا ہے اور وہ اس پر حجت ہے اور ذہن فی الجملۃ علم کو قبول کرتا ہے اور عقل علم کی تمیز رکھتی ہے اور مقداروں کا اندازہ کرتی ہے اور امر اور نہی کی حدود کا ادراک کرتی ہے۔

روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : فلاں نصرانی شخص کتنا عقل مند ہے، آپ نے فرمایا : چپ کرو ! کافر میں کوئی عقل نہیں ہوتی، کیا تم نے قرآن مجید کی یہ آیت نہیں سنی :

وَقَالُوْا لَوْکُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰٰبِ السَّعِیْرِ ۔ (الملک : ١٠)

کفار نے کہا : اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل سے کام لیتے تو ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے۔

حکیم ابو عبد اللہ ترمذی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو ڈانٹا، پھر فرمایا : چھوڑو ! عاقل وہ شخص ہے جو اللہ کی اطاعت کے ساتھ عمل کرے۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٦٨، دارالفکر، بیروت : ١٤١٥ ھ)

میں کہتا ہوں کہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ کفار کی عقل نہیں ہوتی اور الطور : ٣٢ میں کفار کی عقل کا ثبوت ہے، پھر ان کی عقل کا کیسے انکار کیا جاسکتا ہے ؟ اگر کفار کی عقل نہ ہوتی تو ان کا مکلف کروصحیح نہ ہوتا، اگر ان کی عقل نہ ہوتی تو وہ کس چیز سے مدبر اور تفکر کرتے اور کس چیز سے مکر اور سازشیں کرتے ؟ اور الملک : ١٠ میں کفار کی عقل کی نفی نہیں ہے، بلکہ عقل کے تقاضے پر عمل کرنے کی نفی ہے، گویا کافروں نے کہا : اگر ہم غور سے سنتے اور عقل کے تقاضے پر عمل کرتے تو دوزخی نہ ہوتے۔ اور حکیم ترمذی کی روایات بعض اوقات بےاصل یا موضوع ہوتی ہیں اور بر تقدیر تسلیم ان میں مطلق عقل کی نفی نہیں ہے بلکہ عقل سلیم کی نفی ہے۔

نیز قرآن مجید میں کفار کے متعلق ہے :

لہم قلوب لا یفقھون بھا ( الاعراف : ١٧٩) ان کے قلوب ( عقول) ہیں لیکن وہ ان سے سمجھتے نہیں ہیں۔

اور منافقین کے متعلق ہے :

بل کانو لا یفقھون الا قلیلا۔ (الفتح : ١٥) بلکہ وہ ( منافقین) بہت کم سمجھتے ہیں۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ کفار اور منافقین کی عقلیں ہیں لیکن وہ انسے بالکل کام نہیں لیتے یا بہت کم کام لیتے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل نہ دی ہوتی تو ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت نہ ہوتی، قیامت کے دن کفار یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم تجھ پر اور تیرے رسول پر اس لیے ایمان نہیں لائے کہ ہمارے پاس عقل تھی ہی نہیں، اس لیے علامہ قرطبی کا یہ نقل کرنا صحیح نہیں ہے کہ کفار کی عقل نہیں ہوتی۔

کفار کے ہذیان کا محرک ان کی عقل ہے یا ان کی سرکشی

اس آیت میں فرمایا ہے : آیا ان کی عقلیں یہ حکم دے رہی ہیں یا وہ سرکش لوگ ہیں۔ اس حکم سے مراد کیا ہے اور اس میں کس چیز کی طرف اشارہ ہے ؟ اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١) کافروں کے اقوال اور افعال سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ آیا ان کی عقلیں انہیں بت پرستی کا حکم دیتی ہیں یا وہ لوگ سرکش ہیں، یعنی اپنی سرکش سے بت پرستی کرتے ہیں۔

(٢) انہوں نے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کہا تھا کہ آپ کا ہن اور شاعر ہیں یا مجنون ہیں تو اس قول کا حکم ان کی عقلوں نے دیا تھا یہ اپنی سرکشی سے ایسا کہتے ہیں۔

(٣) کفار نے کہا تھا کہ ہم آپ کی موت کا یا آپ پر مصائب روزگار کے نزول کا انتظار کر رہے ہیں تو اس قول کا حکم ان کی عقلوں نے دیا یا انہوں نے اپنی سرکشی سے ایسا کہا۔

القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 32