أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مُتَّكِــئِيۡنَ عَلٰى سُرُرٍ مَّصۡفُوۡفَةٍ‌ ۚ وَزَوَّجۡنٰهُمۡ بِحُوۡرٍ عِيۡنٍ ۞

ترجمہ:

وہ صف بہ صف تختوں پر ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے ‘ ہم ان کا نکاح کشادہ چشم گوری عورتوں سے کردیں گے

الطور : ٢٠-١٩ میں فرمایا : ان سے کہا جائے گا : خوشی سے کھائو اور پیو ‘ یہ ان نیک کاموں کی جزاء ہے جو تم کرتے تھے۔ وہ صف بہ صف تختوں پر ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے ‘ ہم ان کا نکاح کشادہ چشم گوری عورتوں سے کردیں گے۔

اللہ تعالیٰ آخرت میں متقین کو جو نعمتیں عطا فرمائے گا ان آیتوں میں ان نعمتوں کے اسباب کا ترتیب وارذکر فرمایا ہے ‘ سب سے پہلے انسان کو رہنے کی جگہ اور مسکن کی ضرورت ہوتی ہے اور آخرت میں متقین کا مسکن جنت ہے ‘ اس لیے پہلے متقین کے لیے جنتوں کا ذکر فرمایا ‘ پھر پیٹ بھرنے کے لیے کھانے پینے کی اور لیٹنے کے لیے بستر اور بچھونے کی ضرورت ہوتی ہے پھر لذت اندوزی کے لیے بیویوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان چاروں چیزوں کا ترتیب وار ذکر فرمایا ‘ مسکن کے لیے جنتوں کا ذکر فرمایا اور کھانے پینے کے لیے ” فاکھین “ پھلوں اور میووں کا ذکر فرمایا اور بستر کے لیے ” سرر “ تختوں کا ذکر فرمایا اور بیویوں کے لیے ” حورعین “ حوروں کا ذکر فرمایا کہ وہ خوشی کے ساتھ کھائیں گے اور پئیں گے ‘ اس میں یہ بتایا کہ ان کے کھانے پینے کی چیزوں میں دنیاوی خرابیاں نہیں ہوں گی ‘ ان کے کھانے پینے کی چیزیں دیر تک رکھنے سے باسی اور بدبودار نہیں ہوں گی ‘ وہ چیزیں کبھی ختم نہیں ہوں گی ‘ ان کو زیادہ مقدار میں کھانے سے بدہضمی نہیں ہوگی ‘ نہ ان کے کھانے سے کوئی بیماری ہوگی ‘ کھانے کے حصول میں کوئی مشقت اور تھکاوٹ ہوگی نہ کوئی گناہ ہوگا ‘ گوشت اور سبزیوں کو پکانا اور گلانا نہیں پڑے گا ‘ کھانے اور پینے کے بعد بول و براز اور بدبودار ریح کا عارضہ نہیں ہوگا۔

نیز فرمایا : یہ تمہارے ان نیک کاموں کی جزاء ہے جو تم دنیا میں کرتے تھے ‘ یہ نیک کام درحقیقت جنت میں دخول کا سبب نہیں ہیں ‘ جنت میں تو اللہ سبحانہ اپنے فضل سے داخل فرمائے گا اور یہ نیک اعمال جنت میں داخل ہونے کا ظاہری اور صوری سبب ہیں اور اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان ہے کہ اس نے ان کو ایمان لانے اور اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی ‘ قرآن مجید میں ہے :

بل اللہ یمن علیکم ان ھد کم للایمان (الحجرات : ١٧) بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ وہ تم کو ایمان لانے کی ہدایت دیتا ہے۔

کافروں کی جزاء اور مئومنوں کی جزاء میں امام رازی کی نکتہ آفرینی

امام رازی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا ہے :

انما تجزون ما کنتم تعملون۔ (التحریم : ٧) تم کو صرف اس عمل کی جزادی جائے گی جو تم کرتے تھے۔

اور مئومنین کے متعلق فرمایا ہے :

کلو اواشربو اھینا بما کنتم تعملون۔ (الطور : ١٩) خوشی سے کھائو اور پیو یہ ان نیک کاموں کی جزاء ہے جو تم کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے کافروں اور مئومنوں دونوں کی جزاء کا ذکر فرمایا ہے ‘ کیا ان جزائوں میں کوئی فرق ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں بہت زیادہ فرق ہے اور اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١) کفار کی جزاء کے ساتھ ” انما “ کا ذکر فرمایا ہے جو حصر کا کلمہ ہے یعنی ان کو صرف یہی جزاء دی جائے گی ‘ اس کے بر خلاف مئومنوں کی جزاء کے ساتھ ” انما “ نہیں فرمایا کیونکہ مئومن کو اللہ تعالیٰ صرف اس کے عمل کی جزاء نہیں دے گا بلکہ اپنے فضل سے اس کو اس کے عمل کے استحقاق سے بہت زیادہ اجر عطا فرمائے گا اور اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر جو احسان فرمائے گا وہ صرف جنت میں کھلانے پلانے کا احسان نہیں ہوگا۔

(٢) مئومنوں کے متعلق فرمایا ہے ‘ ” بما کنتم “ یعنی تمہارے نیک اعمال کے سبب سے اور کافروں کے متعلق فرمایاـ ” ماکنتم “ یعنی تم کو بعینہ تمہارے اعمال کی جزاء دی جائے گی اور مئومنوں کے متعلق جو فرمایا ہے اس کا معنی ہے : تم کو تمہارے اعمال کے سبب سے دائما جزاء ملتی رہے گی۔

(٣) کفار کے متعلق جزاء کا ذکر ہے اور مئومنوں کے متعلق فرمایا : ” بماکنتم تعملون “ کفار کے ساتھ جزاء کا ذکر کرکے یہ ظاہر فرمایا کہ کفار کو جو کچھ جزاے دینی تھی وہ دے دی جائے گی اور بس ‘ کیونکہ جزاء کا مطلب یہی ہوتا ہے اس کا جو کچھ معاوضہ تھا یہی ہے اور مئومنوں کے ساتھ جزاء کا ذکر نہیں فرمایا یعنی ان کو ان کے نیک اعمال پر بہت زیادہ اجر ملتا رہے گا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے گا کہ مئومنوں کو ثواب عطا کرنے کے ذکر میں بھی جزاء کا ذکر فرمایا ہے ‘ جیسا کہ یہ آیت ہے : اولیک اصحب الجنۃ خلدین فیھا جزاء بما کانو یعملون۔ (الاحقاف : ١٤) یہ اہل جنت ہیں جو ہمیشہ جنت میں رہیں گے یہ ان کے ان نیک اعمال کی جزاء ہے جو وہ دنیا میں کرتے تھے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ مئومنوں کے لیے جہاں بھی جزاء کے لفظ کا ذکر کیا ہے وہ غائب کے صیغہ سے ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ ان کا اجر دائمی ہوگا اور منقطع نہیں ہوگا اور مئومنوں کے لیے خطاب کے صیغہ کے ساتھ جزاء کا ذکر نہیں ہے جب کہ کافروں کے لیے خطاب کے صیغے کے ساتھ جزاء کا ذکر ہے۔ (تفسیر کبیرج ١٠ ص ٢٠٧ -٢٠٦‘ داراحیاء التراث العربی ‘ بیرات ‘ ١٤١٥ ھ)

امام رازی کی نکتہ آفرینی پر مصنف کا تنصرہ

امام رازی نے مومن اور کافر کی جزاء میں تین وجوہ سے فرق کا ذکر فرمایا ہے اور ان کی تقریر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافر اور مومن دونوں کی جزاء کو اجروثواب پر محمول کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے پہلے فرق کی وجہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ کافر کو صرف اس کے عمل کی جزاء دی جائے گی اور مومن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے عمل سے زیادہ اجرء عطا فرمائے گا اور دوسرے فرق کی وجہ میں ذکر کیا کہ کافر سے فرمایا : تم کو بعینہ تمہارے اعمال کی جزاء دی جائے گی اور مئومن کے متعلق ” بما کنتم “ فرمایا ہے یعنی تم کو تمہارے اعمال کے سبب سے دائما جزاء ملتی رہے گی اور تیسرے فرق کی وجہ میں یہ ذکر کیا کہ کافر کو جو جزاء دینی تھی وہ دے دی جائے گی اور بس ! اور مئومن کو اجر وثواب ملتا رہے گا۔

امام رازی کی یہ تقریر صحیح نہیں ہے کیونکہ کافر کے لیے جب جزاء کا لفظ قرآن میں آتا ہے تو وہ اجر وثواب کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ سزا اور عذاب کے معنی میں ہوتا ہے اس کے بر خلاف مئومن کے لیے جزاء کا لفظ قرآن مجید میں اجر وثواب کے معنی میں ہوتا ہے ‘ کافر کے لییجزاء کا لفظ سزا اور عذاب کے معنی میں ہوتا ہے ‘ اس کی مثال حسب ذیل آیتوں میں ہے :

اصلو ھا ناصبروا اولا تصبرو اسواء علیکم انما تجزون ما کنتم تعملون۔ (الطور : ١٦) اس دوزخ میں داخل ہو جائو پھر خواہ تم صبر کرو یا نہ کرو ‘ یہ تمہارے لیے برابر ہے ‘ تم کو ان ہی کاموں کی سزا دی جا رہی ہے جو تم کرتے تھے۔

یایھا الذین کفرو الا تعتذروا الیوم انما تجزون ما کنتم تعملون۔ (التحریم : ٧) آج تم عذر پیش نہ کرو ‘ تم کو صرف ان ہی کاموں پر سزا دی جا رہی ہے جو تم کرتے تھے۔

کذلک نجزی القوم المجرمین۔ (یونس : ١٣) ہم اسی طرح مجرم لوگوں کو سزا دیتے ہیں۔

سیجز یھم بما کانوا یفترون۔ (الانعام : ١٣٨) عنقریب اللہ ان مشرکوں کو ان کے افتراء کی سزا دے گا۔

ثم قیل للذین ظلموا ذوقوا عذاب الخلدھل تجزون الا بما کنتم تکسبون۔ (یونس : ٥٢) پھر ظالموں سے کہا جائے تا : اب تم دائمی عذاب چکھو تم کو صرف ان ہی کاموں کی سزا دی جائے گی جو تم دنیا میں کرتے تھے۔

فالیوم تجزون عذاب الھون بماکنتم تستکبرون (الاحقاف : ٢٠) آج تم کو ذلت والے عذاب کی سزا دی جائے گی اس سبب سے کہ تم تکبر کرتے تھے۔

نیز امام رازی نے دوسرے فرق کے بیان میں کہا ہے کہ مئومنوں کے لیے فرمایا ہے : ” بما کنتم “ اور کافروں کے لیے فرمایا ہے : ” ما کنتم “ یہ بھی صحیح نہیں ہے ‘ الانعام : ١٣٨ میں کافروں کے لیے بھی فرمایا ہے : ” سیجز یھم بما کانو یفترون۔ “ اور الاحقاف : ٢٠ میں فرمایا ہے : ” فالیوم تجزون عذاب الھون بما کنتم تستکبرون “۔

امام رازی نے تیسرے فرق کے بیان میں یہ کہا ہے کہ مئومنین کے لیے جزاء کا ذکر خطاب کے صیغہ کے ساتھ نہیں ہے ‘ یہ درست ہے لیکن یہ تینوں فرق اس بنیاد پر ہیں کہ کفار کو بھی آخرت میں ان کے (نیک) اعمال پر اجر دیا جائے گا جب کہ یہ بنیاد ہی غلط ہے ‘ کفار کو آخرت میں ان کے کسی عمل پر کوئی اجر نہیں دیا جائے گا ‘ قرآن مجید میں ہے :

وقدمنا الی ما عملوا من عمل فجعلنہ ھباء منثورا۔ (الفرقان : ٢٣) اور کافروں نے اپنے زعم میں جو بھی (نیک) کام کیا ہم اس کا قصد کر کے اس کو فضا میں بکھرے ہوئے غبارے کے باریک ذرے بنادیں گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 20