يَـتَـنَازَعُوۡنَ فِيۡهَا كَاۡسًا لَّا لَغۡوٌ فِيۡهَا وَلَا تَاۡثِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 23
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يَـتَـنَازَعُوۡنَ فِيۡهَا كَاۡسًا لَّا لَغۡوٌ فِيۡهَا وَلَا تَاۡثِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
وہ جنت میں شراب کے جام کے لیے ایک دوسرے پر چھپٹ رہے ہوں گے جس میں نہ کوئی بےہودگی ہوگی اور نہ گناہ
اہل جنت مے مخمور ہونے کی کیفیات
الطور : ٢٣ میں فرمایا : جنت میں شراب کے جام کے لیے ایک دوسرے پر جھپٹ رہے ہوں گے جس میں نہ کوئی بےہودگی ہوگی اور نہ کوئی گناہ۔
اس آیت میں ” کاس “ کا لفظ ہے ‘ ” کاس “ شراب کے برتن کو کہتے ہیں اور ہر وہ برتن جو کسی مشروب سے پھرا ہوا ہو اس کو ” کاس “ کہتے ہیں ‘ اس میں فرمایا ہے : وہ اس پر جھپٹ رہے ہوں گے ‘ یعنی مئومنین ‘ ان کی بیویاں اور ان کے خدام ان مشروبات کا لارہے ہوں گے۔
اس شراب کے متعلق فرمایا : اس میں کوئی بےہودگی نہیں ہوگی یعنی اس شراب کے پینے کے بعد ان پر نشہ طاری نہیں ہوگا ‘ ان کی عقل مائوف نہیں ہوگی اور وہ ہوش و خرد سے بےگانے نہیں ہوں گے کہ اس شراب کو پی کر وہ اول فول باتیں کریں اور نہ وہ کوئی گناہ کا کام کریں گے اور نہ اس کے نشہ میں جھوٹ بولیں گے۔
اہل جنت شراب پی کر ایسے کام نہیں کریں گے جن کی وجہ سے ان کو گناہ کی طرف منسوب کیا جائے ‘ جیسا کہ عام لوگ دنیا میں شراب پی کر جھوٹ بولتے ہیں ‘ گالیاں دیتے ہیں ‘ فحش کام کرتے ہیں اور اہل جنت ‘ جنت کی شراب پی کر حکمت کی باتیں کریں گے اور عمدہ کلام کریں گے کیونکہ ان کی عقلیں اور ہوش و حواس قایم ہوں گے جس طرح دنیا میں اولیاء کرام اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت کے نشہ میں مخمور ہوتے ہیں اور وہ معارف اور حقائق کی باتیں کرتے ہیں۔ علامہ بقلی نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی جس شراب کے پیالوں کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا : وہ اس شراب کے پیالوں پر جھپٹ رہے ہوں گے، اس کے معنی ہے : وہ اللہ تعالیٰ کے مزید قرب کے شوق میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہوں گے، اور وہ شراب ایسی ہے جیسی دنیا میں اہل اللہ معرفت کی شراب پیتے ہیں اور جو بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہونے والے ہوتے ہیں ان کا حال عام دنیاداروں کی طرح نہیں ہوتا اور کبھی اہل معرفت خواب میں کھاتے پیتے ہیں اور اس کھانے پینے کی طاقت اور توانائی وہ بیداری میں بھی اپنے جسم میں محسوس کرتے ہیں جیسا کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے :
حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصال کے روزے رکھے تو صحابہ نے وصال کے روزے رکھنے شروع کردیئے اور وہ ان پر دشوار ہوگئے تو آپ نے ان کو وصال کے روزے ( جن میں نہ افطار ہے نہ سحر) رکھنے سے منع فرمایا، انہوں نے کہا : آپ بھی تو وصال کے روزے رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : میں تمہاری مثل نہیں ہوں، مجھے کھلایا جاتا ہے اور پلایا جاتا ہے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٩٢٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٠٢، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٣٢٠ )
اس سے مراد یہ ہے کہ کھانے پینے کا جو ثمرہ ہوتا ہے وہ آپ کو حاصل ہوجاتا ہے اور وہ ثمرہ یہ ہے کہ آپ کو بھوک اور پیاس نہ لگے اور کھانے اور پینے سے جو قوت اور توانائی حاصل ہوتی ہے وہ آپ کو حاصل ہوجائے۔ اسی طرح بعض اہل اللہ بھی خواب میں کھاتے پیتے ہیں اور بیداری میں اس کھانے پینے کی قوت حاصل ہوجاتی ہے اور ان کو بھوک پیاس نہیں لگتی، جیسا کہ حدیث میں ہے :
حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن ( کامل) کا خواب نبوت کے چھپالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے، اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩٨٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٧١، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٠٦٩۔ ٥٠١٨، مسند احمد ج ٣ ص ١٨٥)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے سو میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ نبی ہوگا، لوگوں پر یہ بات دشوار ہوئی تو آپ نے فرمایا : مسلمان کا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ایک جز ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٧٢، مسند احمد ج ٣ ص ٢٦٧ )
القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 23