أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ عِنۡدَهُمُ الۡغَيۡبُ فَهُمۡ يَكۡتُبُوۡنَؕ ۞

ترجمہ:

یا ان کے پاس غیب ہے سو وہ لکھ رہے ہیں

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعراض کرنے کی وجہ سے کفار کی مذمت

الطور : ٤١ میں فرمایا : یا ان کے پاس علم غیب ہے سو وہ لکھ رہے ہیں۔

قتادہ نے کہا : جب مشرکین نے یہ کہا ہم ان کی موت کا یا ان پر زمانے کے حوادث کے آنے کا انتظار کررہے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا : کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے جس سے ان کو معلوم ہوگیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کب وفات پائیں گے یا آپ اپنی تبلیغ ِ رسالت کے مشن میں کامیاب ہوں گے یا ناکام۔

حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ کیا ان کے پاس لوح محفوظ ہے جس میں وہ دیکھتے رہتے ہیں پھر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے۔

قتبی نے کہا : اس کا معنی ہے : کیا ان کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے وہ فیصلہ کر رہے ہیں ؟

امام رازی نے کہا : اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ یہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجہ میں پہنچ گئے ہیں اور ان کو غیب کا علم ہوگیا ہے، حتیٰ کہ یہ آپ سے مستغنی ہوگئے ہیں اور اس وجہ سے آپ کی ہدایت اور نصیحت سے اعراض کر رہے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 41