أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ لَهُمۡ سُلَّمٌ يَّسۡتَمِعُوۡنَ فِيۡهِ‌ ۚ فَلۡيَاۡتِ مُسۡتَمِعُهُمۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍؕ ۞

ترجمہ:

کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر ( چڑھ کر) وہ سن لیتے ہیں تو ان سننے والوں کو چاہیے کہ وہ اس پر کوئی واضح دلیل پیش کریں گے.

الطور : ٣٨ میں فرمایا : کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر ( چڑھ کر) وہ سن لیتے ہیں ؟ تو ان سننے والوں کو چاہیے کہ وہ اس پر کوئی واضح دلیل پیش کریں۔

یعنی کیا وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس آسمان تک چڑھنے کا کوئی ذریعہ ہے اور اس ذریعہ سے وہ آسمان تک پہنچ کر آسمان کی خبریں حاصل کرلیں گے اور علم غیب تک ان کی رسائی ہوجائے گی جیسا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے ذریعہ علم غیب حاصل کرتے ہیں اور اگر ان کا یہ دعویٰ برحق ہے تو وہ اس پر کوئی دلیل پیش کریں۔ اس آیت میں ” سلم “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : سیڑھی۔

القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 38