اِنۡ هُوَ اِلَّا وَحۡىٌ يُّوۡحٰىۙ ۞- سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 4
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنۡ هُوَ اِلَّا وَحۡىٌ يُّوۡحٰىۙ ۞
ترجمہ:
ان کا کہا ہوا وہی ہے جس کی ان کی طرف وحی کی جاتی ہے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کی تحقیق
النجم : ٤ میں فرمایا : ان کا کہا ہوا وہی ہے جس کی ان کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
وحی کا لغوی معنی ہے : لکھنا، اشارہ کرنا اور کلام خفی، اور وحی کا اصطلاحی معنی ہے : اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جس کو وہ اپنے نبیوں اور رسولوں پر نازل فرماتا ہے۔
اس آیت میں ان مشرکین کا رد ہے جو قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کو شعر و شاعری کہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے بتایا : یہ قرآن اور آپ کا کلام اللہ تعالیٰ کی وحی ہے، شعر و شاعری نہیں ہے اور وحی عام ہے خواہ وحی جلی ہو یا وحی خفی ہو، اور وحی خفی میں احادیث بھی داخل ہیں۔
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
ابو علی جبائی اور اس کا بیٹا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے قائل نہیں ہیں، وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے جو کچھ بھی نطق کیا وہ وحی ہے اور جو اجتہاد سے ہو وہ وحی نہیں ہوتا، پس وہ آپ کا نطق اور آپ کا کہا ہوا نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اجتہاد کو جائز قرار دیا ہے اس لیے آپ کا اجتہاد بھی وحی ہے، یعنی وحی خفی ہے اور آپ کا اپنی خواہش سے کلام نہیں ہے، اس پر یہ اعتراض ہے کہ اگر اجتہاد بھی وحی ہوتا ہے تو مجتہدین جو اپنے قیاس سے مسائل استنباط کرتے پھر وہ بھی وحی کہلائیں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ آپ اجتہاد کریں اور دوسرے مجتہدین کی طرف یہ وحی نہیں کی گئی۔ قاضی بیضاوی نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ پھر آپ کا اجتہاد وحی کے سبب سے ہوگا خود وحی نہیں ہوگا، صاحب الکشف نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرمایا : جب تمہارے ظن کے مطابق کوئی حکم ہو تو وہ میرا حکم ہے، یعنی ہر وہ چیزجس کو میں تمہارے دل میں ڈالوں وہ میری مراد ہے، پھر آپ کا اجتہاد حقیقۃً وحی ہوگا۔
علامہ آلوسی لکھتے ہیں : میرے نزدیک ” وما ینطق عن الھوی۔ “ ( النجم : ٣) اپنے عموم پر ہے، کیونکہ امام یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے قائل ہیں وہ نہیں کہتے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اجتہاد سے جو حکم دیتے ہیں وہ اپنی خواہش سے دیتے ہیں، آپ کی شان اس سے بہت بلند ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ آپ کا اجتہاد وحی کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٧٢، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد میں مذاہب ِ فقہاء
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
امام شافعی (رض) نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام میں وہ امور بھی داخل ہیں جو اجتہاد سے صادر ہوئے اور یہی امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔
معتزلہ میں سے ابو علی اور ابو ہاشم نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجتہاد سے عبادت نہیں کرتے تھے۔
( الاحکام للاعدی ج ٤ ص ١٣٤)
بعض معتزلہ نے کہا : آپ کے لیے جنگوں میں اجتہاد کرنا جائز تھا اور دین کے احکام میں اجتہاد کرنا جائز نہیں تھا۔
جو ائمہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے قائل ہیں ان کے دلائل حسب ذیل ہیں :
(١) اللہ تعالیٰ نے بالعموم فرمایا ہے :
فاعتبروا یاولی الابصار۔ ( الحشر : ٢) پس اے بصیرت والو ! قیاس کرو۔
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ صاحب بصیرت تھے اور آپ سب سے زیادہ قیاس کی شرائط پر مطلع تھے اور اس کو جانتے تھے کہ قیاس میں کیا چیزیں واجب ہیں اور کیا جائز ہیں، پس آپ دوسروں کی بہ نسبت قیاس کرنے میں اگر راجح نہیں تو کم از کم مساوی ضرور ہیں، لہٰذا آپ بھی قاس کرنے کا حکم میں داخل ہیں، سو آپ بھی قیاس کرنے والے ہیں ورنہ آپ کی عصمت پر حرف آئے گا۔
(٢) جب آپ کا ظن غالب یہ ہو کہ اصل میں حکم کسی وصف ( علت) پر مبنی ہے اور جب آپ کو علم ہو کہ فرع میں وہ وصف موجود ہے تو ضروری ہے کہ آپ یہ گمان کریں کہ فرع میں بھی اصل کی طرح اللہ کا حکم ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ قیاس پر عمل کریں۔
(٣) نص صریح کی بہ نسبت اجتہاد کے موافق عمل کرنا زیادہ مشکل اور دشوار ہے تو اس میں زیادہ ثواب ہوگا کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
افضل العبادات احمزھا جو عبادت زیادہ دشوار ہو وہ زیادہ افضل ہے۔
( النہایہ ج ١ ص ٤٢٢، الاسرار المرفوعۃ رقم الحدیث : ٢٠٨، المقاصد الحسنۃ ص ٨٩، کشف الخشفاء ص ١٥٥ )
اور اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجتہاد پر عمل نہ کریں جب کہ آپ کی امت نے اجتہاد پر عمل کیا ہے تو اس باب میں امت آپ سے افضل ہوگی اور یہ جائز نہیں ہے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اجتہاد پر ہی عمل کریں کیونکہ یہ افضل ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ اجتہاد اس وقت کیا جائے جب اس مسئلہ میں نص موجود نہ ہو، اس لیے ہر مسئلہ اور ہر معاملہ میں اجتہاد نہیں ہوسکتا، دوسرا جواب یہ ہے کہ وحی کا درجہ اجہتاد سے اعلیٰ ہے، لہٰذا جب آپ کے لیے وحی کا حصول ممکن ہے تو آپ کے لیے حصول وحی کی صورت میں اس پر عمل کرنا افضل ہے۔
(٤) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
العلماء ورثۃ الانبیائ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
( سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٦٤١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٣، مسند احمد ج ٥ ص ١٩٦)
پس ضروری ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجتہاد کیا ہو، ورنہ مجتہدین اور مفتیان کرام اجتہاد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث نہیں ہوں گے۔
(٥) بہ کثرت احکام اور سنن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب ہیں ( جیسے وضو میں کلی کرنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا وغیرہ اسی طرح نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا، قیام میں ہاتھ باندھنا، سورة فاتحہ پڑھنے کے بعد آمین کہنا، زکوٰۃ میں نصاب کی مقدار اور حج میں تلبیہ پڑھنا، طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کرنا اور اسی طرح حدود اور قصاص اور روزوں اور دیگر احکامِ شرعیہ کی تفصیلات ہیں) اگر تمام احکام وحی سے ثابت ہوں اور آپ کے اجتہاد سے کوئی حکم ثابت نہ ہو تو پھر بعض احکام آپ کی سنت کس طرح قرار پائیں گے ؟
(المحصول ج ٤ ص ١٣٦٦، موصحاً و مخرجاً ، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد میں فقہاء احناف کا نظریہ
علامہ ابن امیر الحاج المتوفی ٨٧٩ ھ، علامہ ابن ھمام حنفی المتوفی ٨٦١ ھ کی ” التحریر “ کی شرح میں لکھتے ہیں :
متأخرین فقہاء احناف کا مختار مذہب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی پیش آمدہ مسئلہ میں پہلے وحی نازل ہونے کا انتظار کریں اور جب انتظار کی مدت ختم ہوجائے اور وحی نازل نہ ہو تو پھر آپ اس میں اجتہاد کریں اور آپ اجتہاد سے جو حکم دیں گے وہ وحی کی طرح قطعی ہوگا۔ اس کے بر خلاف دوسرے مجتہدین کے اجتہاء سے جو حکم ثابت ہو وہ ظنی ہوتا ہے کیونکہ ان کا اجتہاد خطاء کا احتمال رکھتا ہے اور آپ کا اجتہاد خطاء کا احتمال نہیں رکھتا اور اگر بالفرض اس میں خطاء ہو تو آپ کو اس پر برقرار نہیں رکھا جائے گا، بلکہ متنبہ کردیا جائے گا۔ ( التفریر والخیرج ٣ ص ٣٩٢، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خطاء اجتہادی میں مصنف کی تحقیق
محققین کا یہی مذہب ہے کہ آپ کے اجتہاد میں خطاء نہیں ہوتی اور شمس الائمہ سرخسی نے کہا ہے کہ آپ کا اجتہاد وحی کے قائم مقام ہے اور تحقیق یہ ہے کہ جن صورتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ آپ کی اجتہادی خطاء تھی جیسے بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے کر ان کو آزاد کرنا یا فجر کی نماز میں ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھانا یا شہد کو اپنے اوپر طبعاً حرام قرار دینا، یہ چیزیں بہ ظاہر صورۃً خطاء تھیں تاکہ امت میں اجتہاد خطاء کا نمونہ ہو اور یہ چیزیں حقیقہً خطاء نہیں تھیں ورنہ بعد میں فدیہ لے کر قیدیوں کو آزاد کرنا ممنوع قرار دیا جاتا اور جنگ میں کفار سے شکست یا کسی نا گہانی مصیبت میں قنوت نازلہ پڑھنا بعد میں ممنوع ہوتا اور کسی شخص کے لیے یہ جائز نہ ہوتا کہ وہ قسم کھا کر یہ کہے کہ میں فلاں چیز کو نہیں کھائوں گا یا کہے کہ فلاں چیز مجھ پر حرام ہے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے وقوع کے ثبوت میں احادیث
جن لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے وقوع کا انتظار کیا ہے، انہوں نے حضرت یعلیٰ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب آپ سے عمرہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے اس وقت تک جواب نہیں دیا جب تک آپ پر وحی نازل نہیں ہوئی، لیکن بہ کثرت ایسی احادیث ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزول وحی کے بغیر فی الفور سائل کے جواب دیئے اور یہ جوابات آپ کے اجتہاد پر قوی دلیل ہیں اور حضرت یعلیٰ کی حدیث کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ وحی سے احکام حاصل کرتے تھے، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ہر حکم وحی سے حاصل کرتے تھے اور اجتہاد بالکل نہیں کرتے تھے، جب کہ آپ نے بہ کثرت سوالات کے جوابات میں فی الفور احکام شرعیہ بیان فرمائے۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح مکہ کے دن یہ خبر دی گئی کہ خزاعہ نے بنولیث کے ایک شخص کو اپنے منقول کے بدلہ میں قتل کردیا ہے، جس کو بنو لیث نے قتل کیا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا : بیشک اللہ نے مکہ میں قتل کو بند کردیا ہے اور ان پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنوں کو مسلط کردیا ہے۔ سنو ! مکہ نہ مجھ سے پہلے کسی شخص کے لیے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔ سنو ! وہ میرے لیے دن کی صرف ایک ساعت کے لیے حلال ہوا ہے اور سنو ! یہ وہی ساعت ہے، نہ اس کے کانٹوں کو اکھاڑا جائے گا، نہ اس کے درختوں کو کاٹا جائے گا اور نہ اس کی گری ہوئی چیز اٹھائی جائے گی، ماسوا اعلان کرنے والے کے، اور جن لوگوں کا کوئی شخص قتل کیا گیا ہو، اس کو دو اختیار ہیں : یا تو وہ دیت لے لے یا قصاص لے لے۔ یمن کے ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے یہ لکھ کردیں۔ آپ نے فرمایا : ابو فلاں کے لیے یہ لکھ دو ۔ قریش کے ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اذخر ( ایک قسم کی گھاس) کا استثناء فرما لیجئے، کیونکہ ہم اس کو اپنے گھر میں اور قبروں میں رکھتے ہیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سو اذخر کے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث، ١١٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٢٤٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٠١٨، سنن نسائی رقم الحدیث : ٢٨٧٥۔ ٢٨٧٤، سنن کبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٣٨٥٧ )
اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اذخر کے استثناء کا سوال کیا گیا اور آپ نے وحی کی طرف مراجعت کے بغیر فی الفور اپنے اجتہاد سے اس کا استثناء کردیا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے سوال کیا کہ محرم کیا پہنے ! آپ نے فرمایا : محرم قمیص پہنے، نہ عمامہ، نہ شلوار، نہ ٹوپی، نہ زعفران یا سرخ رنگ سے رنگ ہوا کپڑا، اگر اس کو نعلین نہ ملیں تو وہ موزے پہن لے اور ان کو ( اوپر سے) کاٹ لے حتیٰ کہ وہ ٹخنوں کے نیچے ہوجائیں۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٤٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٦٦٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٩٣٢)
اس حدیث میں بھی یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سائل کے جواب میں وحی کی طرف مراجعت کیے بغیر فی الفور اپنے اجتہاد سے محرم کے لباس کے متعلق حکم شرعی بیان فرمایا۔
حضرت ام عطیہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب آپ کے پاس ایمان والی عورتیں حاضر ہوں اور وہ آپ سے اس پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پائوں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر لائیں گی اور نہ کسی نیکی کے کام میں آپ کی نافرمانی کریں گی تو آپ ان کو بیعت کرلیا کریں۔ (الممتحنہ : ١٢) اور نیکی کے کاموں میں سے نوحہ کی ممانعت بھی کی تھی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آل فلاں کا استثناء کر دیجئے، کیونکہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں ( نوحہ کرنے میں) میری مدد کی تھی، تو میرے لیے بھی ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ماسوا آل فلاں کے۔
( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٣٠، السنن للنسائی رقم الحدیث : ١٥٨٧)
حضرت برامء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میرے ماموں حضرت ابو بردہ بن نیاز نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ بکری کا گوشت ہے ( یعنی قربانی نہیں ہے، کیونکہ وہ نماز عید کے بعد ہے) انہوں نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے پاس چھ ماہ کا بکرا ہے، آپ نے فرمایا : تم اس کی قربانی کرلو تمہارے علاوہ اور کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٩٦٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٩٧٩، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٨٠١۔ ٢٨٠٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٥٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٥٦٣، سنن کبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٤٤٨٧، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٢٦٢، مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٥٠٧ طبع جدید )
ان دونوں حدیثوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کی طرف مراجعت کے بغیر استثناء بیان فرمایا ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے کہا : میں خوشی سے سرشار تھا تو میں نے روزے کے باوجود بوسہ لے لیا، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آج میں نے بہت سنگین کام کیا ہے، میں نے روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا، آپ نے فرمایا : یہ بتائو ! اگر تم روزے کی حالت میں پانی سے کلی کرلو تو ! ( دارمی میں :) میں نے کہا : تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہوگا، آپ نے فرمایا : اس سے کیسے ہوگا ؟
(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٣٨٥، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٨٢٤، مسند احمد ج ١ ص ٢١ )
اس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صراحتاً قیاس سے حکم شرعی بیان فرمایا ہے اور روزے میں بوسہ لینے کو کلی کرنے پر قیاس فرمایا ہے اور یہ آپ کے اجتہاد پر واضح دلیل ہے۔
حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مال دار لوگ تو اجر وثواب لے گئے، وہ ہماری طرف نماز پڑھتے ہیں اور ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور اپنے زائد مال سے صدقہ دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : کیا اللہ نے تمہارے لیے صدقہ کا سبب مہیا نہیں کیا ؟ ہر بار ” سبحان اللہ “ کہنا صدقہ ہے، ہر بار ” الحمد للہ “ کہنا صدقہ ہے اور ہر بار ” لا الہ الا اللہ “ کہنا صدقہ ہے، اور نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور تم میں سے ہر شخص کا جماع کرنا صدقہ ہے۔ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر ہم میں سے کوئی شخص محض شہوت سے جماع کرے، پھر بھی اس کا یہ عمل صدقہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ بتائو ! اگر تم میں سے کوئی شخص حرام محل میں شہوت پوری کرتا تو کیا اس کو گناہ ہوتا ؟ سو اسی طرح جب وہ حلال محل میں شہوت پوری کرے گا تو اس کو اجر ملے گا۔
( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٩٢، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٩٤٧، مسند احمد ج ٥ ص ١٦٨۔ ١٦٧ )
اس حدیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیاس اور اجتہاد پر واضح دلیل ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی، پھر وہ فوت ہوگئی۔ اس کا بھائی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور اس کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : یہ بتائو ! اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتات و کیا تم اس کو ادا کرتے ؟ اس نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا : پھر اللہ کا حق ادا کرو، وہ ادائیگی کے زیادہ حق دار ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٨٥٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٦٣١)
اس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حق کو بندے کے حق پر قیاس کیا ہے اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کی قول دلیل ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد پر ہم نے ” تبیان القرآن “ ج ٣ ص ٤٨٢۔ ٤٧٨ میں بھی بحث کی ہے اور ” شرح صحیح مسلم “ ج ٣ ص ٢٧٨۔ ٢٦٧ میں بھی بحث کی ہے۔ ان دونوں مقامات کی ابحاث لائق مطالعہ ہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 4