أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ‏ ۞

ترجمہ:

پھر وہ (اللہ، نبی سے) زیادہ قریب ہوا، پھر زیادہ قریب ہوا

” دنا فتدلی “ کی ضمیروں کے مرجع کے مفسرین کے اقوال

النجم : 8 میں فرمایا : پھر وہ ( اللہ، نبی سے) قریب ہوا، پھر زیادہ قریب ہوا۔

اس آیت میں ” دنا “ اور ” فتدلی “ کے الفاظ ہیں ” دنا “ کے معنی ہیں : قریب ہوئے اور ” فتدلیٰ “ کے متعلق ابن قتیبہ نے کہا ہے : اس کا معنی بھی ہے قریب ہوئے، کیونکہ ” تدلی “ قرب کے لیے وضع کیا گیا ہے اور الزجاج نے کہا : ” دنا “ کا معنی ہے : قریب ہوئے اور ” فتدلیٰ “ کا معنی ہے : پس زیادہ قریب ہوئے اور دوسرے ائمہ نے کہا : ” تدلی “ کا اصل معنی ہے : کسی چیز کے قریب نازل ہونا، پس اس کو قرب کے لیے وضع کیا گیا ہے۔

” دنا “ اور ” فتدلی “ کی ضمیروں میں اختلاف ہے کہ کون کس کے قریب ہوا ؟

علامہ ابن جوزی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :

مقاتل نے کہا : رب العزت عزوجل شب معراج سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے دو کمانوں کی مقدار قریب ہوگئے، پھر زیادہ قریب ہوئے۔

حضرت ابن عباس (رض) اور قرظی نے کہا : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب عزوجل کے قریب ہوئے۔

حسن بصری اور قتادہ نے کہا : حضرت جبریل جب زمین سے افق اعلیٰ پر مستوی ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نازل ہوئے۔

مجاہد نے کہا : حضرت جبریل اپنے رب عزوجل کے قریب ہوئے، پس وہ دو کمانوں کے قریب بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے۔

علامہ ابن جوزی نے کہا : ان اقوال میں قول مختار مقاتل کا ہے کیونکہ اس کی تائید میں ” صحیح بخاری “ اور ” صحیح مسلم “ کی حدیث ہے۔ ( زاد المسیر ج ٨ ص ٦٦۔ ٦٥، مکتب اسلامی، بیروت، ١٤٠٧ ھ)

علامہ ابن جوزی نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے :

ودنا الجبار رب العزۃ فتدلی حتی کان منہ قاب قوسین او ادنی

اور جبار رب العزت آپ کے قریب ہوا حتی ٰکہ وہ آپ سے دو کمانوں کی مقدار قریب، بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوا۔

( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥١٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٢ )

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ عزوجل کے قریب ہونے کے محمل کے متعلق محدثین اور مفسرین۔۔۔۔۔۔ کی تصریحات

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

علماء نے اس حدیث سے اشکال کو زائل کیا ہے، قاضی عیاض نے ” الشفائ “ میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو قریب ہونے کی اضافت کی گئی ہے اس سے زمان اور مکان اور جگہ کا قرب مراد نہیں ہے اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عظیم مرتبہ اور آپ کے شرف والے درجہ کو ظاہر کرنا مراد ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود سے مانوس کرنا اور آپ کا اکرام کرنا مراد ہے، اور اس کی وہی تاویل کی جائے گی جو درج ذیل احادیث میں کی گئی ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان ِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے یعنی اترتا ہے، جب تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور فرماتا ہے : کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں اور کون مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں اس کو عطاء کروں اور کون مجھ سے استغفار کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں ؟ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٨، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٣١٤، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٦٦، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٧٦٨ )

علامہ ابو الحسن علی بن خلف المعروف بابن بطال مالکی متوفی ٥٤٩ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اہل بدعت نے اس حدیث پر یہ اعتراض کیا ہے کہ نازل ہونا اور اترنا جسم ہونے کا تقاضا کرتا ہے سو اس حدیث سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جسم ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کی آیات تو قرآن مجید میں بھی ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَّجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا۔ (الفجر : ٢٢) آپ کا رب خود آجائے گا اور فرشتے صف بہ صف آجائیں گے۔

ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلآَّ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللہ ُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ ( البقرہ : ٢١٠)

وہ صرف اس کا انتظار کر رہ ہیں کہ ان کے پاس اللہ خود ابر کے سائے بانوں میں آجائے اور اس کے فرشتے آجائیں۔

فَاَتَی اللہ ُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ (النحل : ٢٦) پس اللہ ان عمارتوں کی بنیادوں پر آیا۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کی نسبت ہے اور آنے اور اترنے دونوں میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے کہ آنا اور اترنا دونوں انتقال اور حرکت کا تقاضا کرتے ہیں جو جسم کے خواص میں سے ہے، پس ان آیات میں آنے کا وہی معنی کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اور وہ ہے متوجہ ہونا، اس طرح جس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی طرف اترنے کی نسبت ہے، اس کا معنی بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

( شرح صحیح البخاری لا بن بطلال ج ٣ ص ١٣٩۔ ١٣٧، ملخصا ً ، مکتبہ الرشید، ریاض، ١٤٢٠ ھ)

اسی طرح یہ حدیث ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ میرا تنہائی میں ذکر کرے تو میں اس کا تنہائی میں ذکر کرتا ہوں اور اگر وہ میرا جماعت میں ذکر کرے تو میں جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور جو میرے ایک بالشت قریب ہو تو اس کے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میرے ایک ہاتھ قریب ہو تو میں اس کے چار ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جو میرے پاس چلتا ہوا آئے تو میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں۔

( مسند احمد ج ٢ ص ٤١٣ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٥ ص ٢٠٥۔ ٢٠٤۔ رقم الحدیث : ٩٣٥١، طبع مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ

نیز حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :

کہ ” ثم دنا “ سے مراد قرب معنوی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ یہ ظاہر فرمائے کہ اس کے نزدیک اپنے نبی (علیہ السلام) کا کتنا عظیم مرتبہ ہے اور ” تدلی “ کا معنی زیادہ قرب کو طلب کرنا ہے اور ” قاب قوسین “ کا معنی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لطیف محل عطاء کرنا اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کی وضاحت کرنا، آپ کی دعا کو قبول کرنا اور آپ کے درجہ کو بلند کرنا۔

( فتح الباری ج ١٥ ص ٤٥٦، ملخصاً و موضحا ًو مخرجاً ، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث میں جبار رب العزت کے قریب ہونے سے مراد قرب معنوی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو آپ کا مرتبہ ہے اس کو ظاہر کرنا ہے، اور ” تدلیٰ “ کا معنی ہے : زیادہ قرب کو طلب کرنا اور ” قارب قوسین “ سے مراد آپ کی دعائوں کو قبول کرنا اور آپ کے د رجہ کو بلند کرنا ہے۔ ( عمدۃ القاری ج ٢٥ ص ٢٥٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ شہاب الدین احمد القسطلانی نے بھی اس حدیث کی یہی تاویل کی ہے اور الماوردی سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے ” ثم دنا “ کی تفسیر میں فرمایا کہ رب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قریب ہوا اور ” فتدلی “ کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی طرف اپنے احکام نازل کیے۔

( النکت والعیون للماوردی ج ٥ ص ٣٩٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت) ( ارشاد الساری ج ١٥ ص ٥٦٥، دارالفکر، بیروت، ١٤٢١ ھ)

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی اندلسی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :

حضرت انس (رض) سے ” صحیح بخاری “ میں یہ حدیث مروی ہے : الجبار رب العزت قریب ہوا، پس زیادہ قریب ہوا حتیٰ کہ آپ اللہ سے دو کمانوں کی مقدار بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥١٧)

محمد بن کعب سے روایت ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے قریب ہوئے پس دو کمانوں کی مقدار ہوگئے۔

جعفر بن محمد نے کہا کہ آپ کو آپ کے رب نے خود سے قریب کیا حتیٰ کہ آپ اپنے رب سے دو کمانوں کی مقدار قریب ہوگئے۔

اور جعفر بن محمد نے کہا : اللہ کے قریب کی کوئی حد نہیں ہے اور بندوں کا قرب محدود ہے، نیز انہوں نے کہا : کیا تم نے دیکھا کہ حضرت جبریل اللہ کے قرب سے کیسے حجاب میں تھے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے قریب ہوئے حتیٰ کہ آپ کے دل میں معرفت اور ایمان کو رکھا گیا، پھر آپ سکون قلب سے وہاں تک قریب ہوئے جہاں تک اللہ نے آپ کو قریب کیا اور آپ کے دل سے ہر قسم کا شک اور تردد زائل ہوگیا۔

قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے یا آپ کو اپنی طرف قریب کرنے کا معنی اس طرح نہیں ہے جو جگہ اور مسافت کا قرب ہو بلکہ جیسا کہ ہم نے امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے اللہ کے قرب کی کوئی حد ( تعریف) نہیں ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ کے عظیم مرتبہ، بلند درجہ، آپ کی معرفت کے انوار اور اللہ تعالیٰ کے غیب اور اس کی قدرت کے اسرار کے مشاہدہ کو ظاہر کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے آپ سے قریب ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ کو مانوس کیا جائے اور آپ کا اکرام کیا جائے۔

اور آپ اللہ سے دو کمانوں کی مقدار بلکہ اس سے زیادہ قریب ہوئے، اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انتہائی قرب اور لطیف محل عطاء کیا، آپ کو واضح معرفت عطاء کی اور محبت سے آپ کی دعائوں کو قبول کیا اور آپ کے مطالبہ کو پورا کیا۔ ( الشفاء ج ١ ص ١٥٩۔ ١٥٨، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ سید محمد آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

حسن بصری حلف اٹھا کر کہتے تھے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوا، اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام اپنے نزدیک بلند کیا اور ” تدلیٰ “ کا معنی یہ ہے کہ اس نے آپ کو بالکلیہ جانب قدس میں جذب کرلیا اور اسی کو اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہونا کہتے ہیں۔

ہم نے جو ” دنا “ کی ضمیر اللہ کی طرف لوٹائی ہے یعنی اللہ آپ کے قریب ہوا، اس کی دلیل ” صحیح بخاری “ کی وہ حدیث ہے کہ جبار رب العزت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہا۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٨٠، ملخصا ً ، دارالفکر، بیرو ت، ١٤١٧ ھ)

نیز علامہ آلوسی لکھتے ہیں :

معظم صوفیہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہٗ جو آپ کے قریب ہوا یا آپ اس کے قریب ہوئے اس سے قرب کا وہ معنی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ اور آپ کی شان کے لائق ہے۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٨٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 8