مقابلے کے دو قرآنی اصول
قرآنیات
*مقابلے کے دو قرآنی اصول*
✍️ پٹیل عبد الرحمن مصباحی، گجرات (انڈیا)
*یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِذَا لَقِیتُمۡ فِئَةࣰ فَٱثۡبُتُوا۟ وَٱذۡكُرُوا۟ ٱللَّهَ كَثِیرࣰا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ* [الانفال، آیت نمبر 45]
ترجمہ : اے ایمان والو جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو۔
دنیا کی معلوم تاریخ میں مقابلے یا ٹکراؤ کے چار معروف طریقے ہیں.
1. سیاسی مقابلہ (Political Confrontation)
2. جنگی مقابلہ (Ground Battle)
2. معاشی مقابلہ (Economic War)
3. تہذیبی مقابلہ (Civilization Clash)
پتھروں کے دور سے لے کر زراعتی عہد اور وہاں سے لے کر روشن خیالی کے دور تک ہمیشہ سے یہ ہوتا چلا آیا ہے کہ قومیں جب بھی ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوتی ہیں اور مختلف محاذوں پر ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنا چاہتی ہیں تو بنیادی طور پر ٹکراؤ کی صورت؛ مذکورہ چار قسموں ہی میں سے کوئی ایک ہوتی ہے. ہاں! اِدھر جدید اور ما بعد جدید دور میں مقابلے کے کچھ نئے طریقوں نے بھی بہت تیزی سے رواج پایا ہے مثلاً اطلاعاتی جنگ(Information War) یا سرد جنگ(Cold War). مگر یہ جدید طریقے بھی مذکورہ چار کے ضمن ہی میں شمار کیے جاتے ہیں. ہمارے دور میں عام طور سے سیاسی مقابلہ آرائی درونِ ممالک ہوتی ہے، جنگی تصادم کا منظر اکثر بین الممالک دیکھنے کو ملتا ہے، معاشی مقابلہ افراد کے درمیان مشہور ہے اور تہذیبی تصادم بلا شبہ؛ اقوام کے درمیان ہوتا ہے.
درج بالا آیت میں کسی بھی قسم کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے کے دو اصول بیان ہوئے ہیں. ایک ثابت قدمی اور دوسرا کثرتِ ذکر. پہلے اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بھی کسی غیر سے مقابلہ کی نوبت آئے تو ابتداءََ اپنے باشعور حضرات کی سرپرستی میں انتہائی غور و خوض کے ساتھ کوئی منظم پلان بنانا اور مقابلہ کے دوران بہر حال اس کے کلیات پر ثابت قدم رہنا. البتہ دوران مقابلہ؛ موقع محل کی مناسبت سے اس کے جزوی امور میں ترمیم کر لی جائے تو یہ ثابت قدمی کے منافی نہیں. اسی طرح دوسرے اصول کا ما حصل یہ ہے کہ مقابلے کے وقت ہر لمحہ اپنے رب کو یاد کرتے رہنا چاہیے، بایں معنیٰ کہ کفار کتنے بھی طاقتور ہوں مگر اللہ کی مدد کا وعدہ ہمارے ساتھ ہے یا بایں معنی کہ اپنے وسائل کتنے ہی کثیر ہوں مگر بہرحال بھروسہ اللہ کی ذات پر کرنا ہے. نیز “اللہ کو کثرت سے یاد کرنے” کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مقابلہ کسی بھی قسم کا ہو، اس میں اپنی ذاتی برتری کا جذبہ شامل نہ ہونے پائے بلکہ ہمہ وقت اللہ کے دین کو غلبہ دلانے کی فکر دامن گیر رہنی چاہیے اور تصور یہ ہونا چاہیے کہ ہر مقابلہ صرف اللہ کی وجہ سے اس کی رضا کے لیے ہے.
عالم اسلام کی کامیابیوں کی تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں ہر مقابلہ ان دو اصولوں کی روشنی میں ہوتا رہا لہٰذا مقابلے کا میدان کوئی بھی ہو، بہرحال بازی ہمارے نام رہتی تھی اور ہر مرتبہ “لعلکم تفلحون” کا منادی ہمیں ہی فتح کی خوش خبری سناتا تھا. اللہ کے ذکر اور اس کی یاد سے مسلمانوں کے حوصلے بلندی کی معراج پر پہنچ جاتے تھے اور مجموعی لائحہ عمل پر ثابت قدمی کے سبب مد مقابل ذہنی طور پر کمزور پڑ جاتا تھا، پھر تھوڑی سی مزاحمت کے بعد اس کے پاؤں اکھڑ جاتے تھے. بدر سے لے کر یمامہ اور قادسیہ سے لے کر اندلس تک؛ ساری فتوحات کی اساسی تدبیر میں مذکورہ دونوں اصول ہی کار فرما ہیں.
یہ ماضی میں ہماری فلاح کا راز تھا مگر حال کا تو نقشہ ہی کچھ اور ہے. ثابت قدمی کی بات کریں تو حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ مسلمان مفکرین میں عجلت پسندی اور بے صبری کا ایسا دور دورا ہے کہ ہر روز نئی تدبیر تراشی جاتی ہے اور ہر شب نیا منشور سامنے رکھا جاتا ہے. مزید ابتری یہ کہ ہر طبقے کے پاس اپنا ایک کامیابی کا چارٹ ہے جس کو متعلقہ طبقہ نجات کا واحد راستہ تصور کرتا ہے. ظاہر ہے کہ جب مجموعی طور پر کوئی متفقہ لائحہ عمل ہی نہ ہو تو ایسے میں ثابت قدمی کی امید لگانا بے کار نہیں تو کم از کم اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ضرور ہے. رہی بات کثرتِ ذکر کی تو جہاں ہر قسم کی سیاسی، معاشی، تعلیمی اور اخلاقی جد و جہد کو دین سے الگ کر کے محض انسانیت نوازی یا ملکی وفاداری یا جمہوری اقدار کی شکل میں دیکھا جاتا ہو وہاں کثرت ذکر تو کجا کسی لمحے اپنی انا سے نکل کر خدا کی پناہ میں آنے کا خیال پیدا ہو جانا ہی غنیمت ہے. آج جب کہ اہل اسلام کے لیے چو طرفہ مقابلہ کا محاذ کھلا ہوا ہے ایسے میں مقابلہ کے مذکورہ دو قرآنی اصولوں کے تحت تدبیر کی لکیریں کھینچی جائیں تو آج بھی مسلمانوں کی شام غریباں کو صبح بہاراں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے.
23.04.1443
28.11.2021