أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِنۡ يَّرَوۡا كِسۡفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا يَّقُوۡلُوۡا سَحَابٌ مَّرۡكُوۡمٌ ۞

ترجمہ:

اور اگر وہ آسمان کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھ لیں تو وہ کہیں گے کہ یہ تو اوپر تلے بادل ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر وہ آسمان کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھ لیں تو وہ کہیں گے : یہ تو اوپر تلے بادل ہیں۔ سو آپ ان کو ( ان کے حال پر) چھوڑ دیں حتیٰ کہ یہ اس دن کو پالیں جس میں ان کو بےہوش کردیا جائے گا۔ جس دن ان کی سازش ان کے کسی کام نہیں آئے گی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ اور بیشک ان ظالموں کے لیے اس عذاب ( آخرت) کے علاوہ ایک اور عذاب ہے لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اور ( اے رسول ِ مکرم ! ) اپنے رب کے حکم پر ثابت قدم رہیں کیونکہ آپ ہماری نگرانی میں ہیں اور جب آپ قیام کریں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں۔ اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس کی تسبیح کریں اور ( صبح کو) ستاروں کے چھپنے کے وقت۔ (الطور : ٤٩۔ ٤٤ )

کفار ِ مکہ کے مطلوبہ معجزات محض ضد بازی اور کٹ حجتی کے لیے تھے

کفارِ مکہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا تھا کہ وہ آپ کی نبوت کو اس وقت مانیں گے جب ان پر آسمان کا ٹکڑا گرا دیا جائے گا، اس کا ذکر ان آیتوں میں ہے :

فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآئِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ (الشعرائ : ١٨٧)

اگر آپ سچوں میں سے ہیں تو ہم پر آسمان کے پکڑے گرا دیجئے۔

اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا (بنی اسرائیل : ٩٢)

یا آپ ہم پر آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دیں جیسا کہ آپ کا گمان ہے۔

کفار یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر آگ سچے نبی ہیں تو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں، اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی ضد، عناد اور ہٹ دھرمی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اگر بالفرض ان پر آسمان گرا دیا جائے تو وہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے، اگر وہ واقعی اپنے مطالبہ میں مخلص ہوتے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد معجزات پیش کیے، خود قرآن مجید اتنا عظیم معجزہ ان کے پاس آچکا ہے اسکے بعد چاہیے تھا کہ وہ ایمان لے آتے لیکن وہ ایمان نہیں لائے، اس سے معلوم ہوا کہ ان کا یہ مطالبہ کہ ان کے اوپر آسمان کے ٹکڑے گرا دیئے جائیں محض کٹ حجتی اور ضد بازی کے لیے تھا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 44