وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ ۞- سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 3
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ ۞
ترجمہ:
وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے
” ھوی “ کے معنی
النجم : ٣ میں فرمایا : وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔
” الھوی “ کا معنی ہے : نفس کا شہوت کی طرف مائل ہونا، اس کا اطلاق عموماً اس شخص پر کیا جاتا ہے جس کا نفس شہوت کی طرف مائل ہو، ” الھاریہ “ دوزخ کو کہتے ہیں کیونکہ ” ھوی “ کی اتباع کے نتیجہ میں انسان دوزخ میں جا گرتا ہے ” الھوی “ کا معنی ہے : بلندی سے نیچے گرنا، ” فامہ ھاویۃ۔ “ ( القارعہ : ٩) اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے، اس کا معنی خالی بھی ہے :
واقد تہم ھوا۔ ( ابراہیم : ٤٣) اور ( قیامت کے دن) کفار کے دل خالی اور اڑے ہوئے ہوں گے۔
( المفردات ج ٢ ص ٧١٢، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
حضرت دائود (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
ولا تبع الھوی (ص : ٢٦) اور آپ خواہش نفس کی پیروی نہ کریں۔
اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا :
وما ینطق عن الھوی۔ ( النجم : ٣) اور آپ خواہش نفس سے کلام نہیں کرتے۔
آپ کا نفس باطل شہوات کی طرف مائل نہیں تھا، آپ کے نفس کی اپنی کوئی خواہش نہیں تھی، آپ وہی چاہتے تھے جو اللہ چاہتا تھا، آپ کی رضا اللہ کی مرضی تھی اور اللہ کی رضا آپ کی مرضی تھی۔
آیات ِ سابقہ سے ارتباط
اللہ تعالیٰ نے پہلے فرمایا : ” ماضل “ آپ نے کبھی راہ راست کو ترک نہیں کیا، پھر فرمایا : ” وما غوی “ آپ کبھی راہ راست کے خلاف نہیں چلے، خلوت میں نہ جلوت میں، ایام طفولیت میں نہ ایام شباب میں، اور جب اللہ سبحانہٗ نے آپ کو مبعوث کیا اور لوگوں کی طرف رسول بنایا اور اپنا پیغام دے کر بھیجا تو وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے، وہ پہلے پاکیزہ اور پارسا تھے اور اب ہاوی اور رونما ہیں، وہ بچپن کے کھیل کود اور فضول لہو اور لعب سے پاک رہے اور شباب کی مستیوں اور عیاشیوں سے دور رہے اور کبھی اپنے دامن کو برے کاموں اور بری باتوں سے آلودہ نہ ہونے دیا اور جب خود اپنی شخصیت اور سیرت میں کامل ہوگئے تو اوروں کو کامل بنانے کے لیے اللہ نے آپ کو رسول بنایا اور اپنا پیغام دے کر بھیجا اور جب اللہ کا پیغام پہنچانے لگے تو وہی حکم دیا جو اللہ کا حکم تھا، جو اللہ کا منشاء اور اس کی مرضی تھی، آپ کی رسالت کو منوانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کمالات عطاء کیے۔ مہر و ماہ کو آپ کی جنبش لب کے تابع کردیا، آپ پر قرآن مجید بہ طور معجزہ نازل کیا جس کی نظیر لانے سے آج ساری دنیا عاجز ہے، جس میں کوئی اضافہ یا کمی کوئی ثابت نہ کرسکا، کسی مکتب میں نہیں گئے، کسی سے پڑھا نہیں، اس کے باوجود ایسی علوم آفریں گفتگو کی جس کے اسرار و رموز آج تک بیان کیے جا رہے ہیں، صالح حیات کے لیے جامع دستور بنایا جو قیامت تک زندگی کے ہر شعبہ کے لیے کفیل ہے، اپنے کسی کمال کے متعلق یہ نہیں کہا : یہ میری کاوش ہے، ہر کمال کے متعلق یہی کہا : یہ اللہ کی عطاء ہے، جو حکم دیا اس پر عمل کر کے دکھایا بلکہ اس سے زیادہ کر کے دکھایا، اپنی پوری زندگی کو اللہ کی اطاعت اور عبادت میں صرف کیا اور اپنی مرضی کو رضائے الٰہی میں ڈھالا تب ہی تو فرمایا : وہ راہ راست سے ہٹے نہیں صراط مستقیم کے خلاف چلے نہیں اور اپنی خواہش سے نطق نہیں کرتے۔
القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 3